سوال نمبر 1007
کیا زید سنی ہے اور اپنے بیٹے کا نکاح ایک وہابی کی لڑکی سے کر رہا ہے تو زید نے شادی خانہ آبادی کے موقع پر میلاد کر رہا ہے اور میلاد میں بکر و عمر وغیرہ کو یہ سب عالم وہ حافظ قرآن ہیں اور اس میں سے کچھ حافظوں کو زید کے بارے میں اچھی طرح سے معلوم ہے کے وہ وہابی کے یہاں اپنے لڑکے کی شادی کر رہا ہے ۔ اور کچھ کو نہیں معلوم ۔ تو ایسے میلاد میں جانا کیسا ہے؟
اور اس کے یہاں کھانا کھانا کیسا ہے؟
اگر میلاد پڑھتا ہے کھانا کھاتا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا اس سے میل جول رکھنا یہ سب شریعت کے رو سے کیسا ہے؟ برائے کرم قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔ سائل علی حسین برکاتی بہار ۔
جواب:-- سنی کا نکاح مرتد یعنی دیو بندی وہابی کے ساتھ جائز نہیں خواہ لڑکا ہو یا لڑکی
سرکار اعلٰی حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ مرتد ومرتدہ حکم شرعی یہی ہے کہ ان کا نکاح نہ کسی مسلم و مسلمہ سے ہوسکتا ہے نہ کافر و کافرہ سے۔ نہ مرتد و مرتدہ سے ان کے ہم مذہب خواہ مخالف مذہب سے، ٖغرض تمام جہاں میں کہیں نہیں ہوسکتا۔مبسوط امام شمس الائمہ سرخسی پھرفتاوٰی ہندیہ میں ہے
’’ لایجوز للمرتدان یتزوج مرتدہ ولامسلمۃ لاکافرۃ اصلیۃ وکذلک لایجوز نکاح المر تدۃ مع احد ‘‘
مرتد شخص کو مرتدہ، مسلمان ہو یا اصلی کافرہ عورت سے نکاح جائز نہیں، یوں ہی مرتدہ عورت کسی مسلمان مرد کے لیے حلال نہیں۔
( فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح القسم السابع المحرمات بالشرک نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۸۲؍بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۱۱؍ ص ۳۶۹)
اور حضور علیہ السلام نے فرمایا
’’ اِیَّا کُمْ وَ اِیَّا ھُمْ لَا یُضِلُّو نَکُمْ وَلَا یُفْتِنُو نَکُمْ اِنْ مَرِضُوْ فَلَا تَعُوْ دُوْھُمْ وَاِنْ مَا تُوْا فَلَا تَشْھَدُوْ ھُمْ وَاِنْ لَقِیْتُمُوْ ھُمْ فَلَا تُسَلِّمُوْا عَلَیْھِمْ وَلَا تُجَا لِسُو ھُمْ وَلَا تُشَا رِبُوا ھُمْ وَلَا تُوَا کِلُوا ھُمْ وَلَا تُنَا کِحُوْ ھُمْ وَلَا تُصَلُّوْا عَلَیْھِمْ وَلَا تُصَلُّوْ مَعَھُمْ‘‘
اگر وہ بیمار پڑجائیں تو انکی عیادت نہ کرو ،اگر مر جائیں تو انکے جنازہ میں شریک نہ ہو،ان سے ملاقات ہو تو انھیں سلام نہ کرو ،انکے پاس نہ بیٹھو ،نہ انکے ساتھ پانی پیو ،نہ ان کے ساتھ کھانا کھائو ،نہ انکے ساتھ شادی بیاہ کرو ،نہ ان کے جنازہ کی نماز پڑھو نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو۔
(یہ حدیث مسلم،ابو دا ؤد ،ابن ما جہ ،عقیلی اور ابن حبان کی روایت کا مجموعہ ہے ۔بحوالہ انوار الحدیث)
مندرجہ بالا عبارت سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ مرتد کے ساتھ نہ تو نکاح جائز ہے اور نہ ہی ان سے سلام و کلام،کھانا پینا، تو کیوں کر انکے یہاں جاکر میلاد پڑھنے کھانا کھانےکی اجازت ہوگی کہ انکا ذبیحہ حرام ہے تو جو شخص جان بوجھ کر ایسےمرتد سے رشتہ رکھے اس سے بھی میل جول کی اجازت نہیں جیسا کہ حسام الحرمین میں ہے من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر پس جو لاعلمی میں گیا وہ گنہگار نہیں مگر پھر بھی توبہ کر لے اور جو انکے عقائد باطلہ پر مطلع ہو کر ایسا کرے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے ان سب پر لازم ہے کہ علانیہ توبہ و استغفار کریں اور آئندہ ایسی قبیح حرکت نہ کرنے کا عہد کریں بعد توبہ انکی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہے یونہی ان کے ساتھ کھانا پینا بھی جائز ہے ۔اور اگر ایسا نہ کریں تو ان کی اقتداء میں نماز جائز نہیں ان کے سا تھ کھانا پینا بھی جائز نہیں بلکہ ان سب کا سماجی بائیکاٹ کردیا جائے جیسا کہ ارشاد ربا نی ہے ’’ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَالذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ اور جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
(کنز لایمان،سورہ انعام ۶۸)
واللہ اعلم بالصواب
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی
0 تبصرے