سوال نمبر 1746
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی مسلمان یہ کہے کہ میں وہابی ہوں پھر کچھ دن کے بعد کہتا ہے کہ میں سنی ہوں کچھ دن کے بعد کہتا ہے کہ نہیں میں وہابی ہوں اسی طرح بار بار کبھی سنی کبھی وہابی بتاتا رہتا ہے اس شخص کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
المستفتی:۔ محمد اکرم براہی
وعلیکم السلام ور حمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب ھو الھادی الی الصواب
اگر شخص مذکور علمائے دیوبند مولانا رشید احمد گنگوہی ،مولانا قاسم نانوتوی ،مولانا خلیل احمد انبیٹھوی ،مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ کی کفری عبارات وعقائد باطلہ سے واقف ہے اوریہ جانتا ہے کہ یہ حضرات کافر و مرتد ہیں یا علماء سے سن رکھا ہے یا وہابی ہونا پسند کیا اور پھر اپنے آپ کو وہابی کہا تو یقیناً شخص مذکور خارج از اسلام ہوگیا۔
فتاوی عالمگیری میں :من یرضی بکفر نفسہ قدکفر" (ج۲؍ص۲۵۷)
فتاوی رضویہ شریف میں ہے:جس نے جس فرقہ کا نام لیا اس فرقہ کا ہوگیا مذاق سے کہے یا کسی دوسری وجہ سے(جبکہ انکے عقائد باطلہ پر مطلع ہو)(ج۶؍قدیم ،ص۱۰۳؍رضا اکیڈمی،ممبئی)
اس میں اب کوئی شک کی بات نہیں کیونکہ دیوبندی اور وہابی اپنے عقائدِ کفریہ کے سبب کافر و مرتد ہیں، پس اگرشخص مذکور وہابی اور دیوبندی کے عقائد سے واقف ہوتے ہوئے اپنے آپ کو اُن کی جماعت میں شامل کرے، بایں طور پر کہ وہ خود کو وہابی یا دیوبندی قرار دے تو وہ گویا اُن عقائد کا اقرار کرنے والا ہے، لہٰذا اُس پر بھی مرتد کا حکم نافذ ہوگا، جس طرح وہابیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے وغیرہ اب اگر کوئی پکا سنی ہونے کا دعویٰ کرنے والا یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے، تو ظاہر ہے وہ مسلمان نہ رہے گا اگرچہ لاکھ بار وہ سنی ہونے کا دعویٰ کرے، یوں ہی اگر کوئی شخص حقیقت میں منافق ہو، لیکن وہ مومن ہونے کا مدعی ہو، تو فقط اپنے آپ کو وہ مومن کہنے سے مسلمان قرار نہیں پائے گا، کیونکہ وہ مؤمنین کے عقائد کا حامل نہیں ہے،
لہٰذا ایسا کہنے والا اپنے عقائدباطلہ اور عبارات کفریہ کی وجہ سے مطابق "حسام الحرمین کافر ومرتد ہوا اورجو اسکےکافر ہونے میں شک کرے وہ خود کافرعلامہ شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمدشریف الحق امجدی نوراللہ مرقدہ ردالمحتار کے حوالے سے نقل فرمایا "اجمع المسلمون علی ان شاتمہ کافر من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر "مسلمانوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جو شخص نبی ﷺ کی توہین کرے وہ کافر ہے ایساکہ جواس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی
(درالمحتارعلی درالمختار،باب المرتد ، مطلب مھم فی حکم سباب الانبیا ء ،ص۳۷۰؍،ج۶؍،دارالکتب العلمیۃ،لبنان،بحوالہ فتاوی شارح بخاری ،ج۲؍ص ۳۸۸)
اوراگرشخص مذکوردیوبندی وہابی کے عقائد کوجانتا ہی نہ ہو اور خودکو فقط وہابی یا دیوبندی دیوبندیوں کی عبادت نماز و روزہ کو دیکھ کر کہتا ہو تو اس کے کہنے سے مرتد نہ ہوگا کیونکہ کوئی شخص دیوبندی وہابی ان کے عقائد کو اختیار کرنے یا حق جاننے سے ہوتا ہے ایسی صورت میں اس پر گمراہ کا حکم لگے گا۔
فتاوی شارح بخاری میں ہےوہ دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفری عبارتوں سے باخبر نہیں ان کی ظاہری حالت دیکھ کر یا کسی وجہ سے ان کو اپنابزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں اورزیادہ تر دیوبندی عوام الناس اسی قسم کے ہیں
(ج۳۳۳۰؍ناشر دائرالبرکات ،گھوسی (مئو)
حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی قدس تحریر فرماتے ہیں:عام دیوبندی جو صرف میلاد ،قیام، فاتحہ وغیرہ میں اہلسنت کی مخالفت کرتے ہیں اور ان عبارات کفریہ کا انہیں علم نہیں ان کو کافر نہیں کہیں گے وہ گمراہ ہیں۔
(وقارالفتاوی،ج۱،ص٢٨٤)
خلاصہ یہ ہے کہ ایسا کہنے والا اگر فرقہائے باطلہ سے واقف ہے تو بلا شک و شبہ مرتد گیا اور اگر انکے عقائد سے واقف نہیں بلکہ انکی عبادات کو دیکھ کر اپنے آپ کو وہابی یا دیو بندی کہتا ہے تو مرتد نہ ہوگا صورت اول میں تجدید ایمان اور شادی شدہ ہو تو تجدید نکاح لازم ہے اور صورت دوم میں تجدید ایمان و نکاح لازم نہیں مگر پھر بھی احتیاطاکرلینا چا ہئے۔واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ
ابوکوثر محمدارمان علی قادری جامعی ،سیتامڑھی
تخصص فی الفقہ نوری دارالافتا ء(بھیونڈی)
١٩/محرم الحرام١٤٤٣ھ۔
الجواب صحیح:
تاج محمد قادری
0 تبصرے