آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

سوانح امیر خسرو علیہ الرحمہ


سوال نمبر 1987

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

سوانح امیر خسرو کیا ہے اور حضور محبوب الہی سے رشتہ کیا ہے

میں کئی لوگوں سے دریافت کیا مگر تشفی بخش جواب نا ملا لہٰذا مسائل شرعیہ گروپ کے علماء حضرات کرم فرمائیں

سائل :-  محمد نسیم پونہ




وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

ملک الشعراء طوطی ہند حضرت ابوالحسن

 الملقب امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ


نام _________ ابوالحسن

لقب ________ امیر خسرو

ولادت _______ 653 ء

آپ کے والد ____ امیر سیف الدین بلخ

مولد ___ موضع پٹالی ضلع ایٹہ

برادران ___ اعزاالدین علی شاہ؛ حسام الدین


وفات امیر خسرو___ 18 شوال 725 ہجری

کل عمر ____ 72 سال


 امیر خسرو ناصر الدین محمود غازی کے زمانہ میں 653 ہجری میں پیدا ہوئے _ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو آپ کے والد بزرگوار فوراً آپ کو لیکر محلے کے ایک مجذوب کے پاس لے گئے _ مجذوب نے آپ کو دیکھتے ہی کہا. اس مشہور زمانہ کو لائے ہو جو خاقانی سے دو قدم آگے ہے.

ابتدائی تعلیم اپنے برادر کلاں اعزالدین علی شاہ سے پائی 9 ہی سال کی عمر میں والد ایک جنگ میں شہید ہو گئے. بعدہ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے نانا نواب عمادالملک کی زیر نگرانی ہوئی. جب امیر خسرو خواجہ محبوب الہی کے دامن میں پناہ گزیں ہوئے اس وقت انکی عمر صرف آٹھ سال تھی. جب بیعت ہونے کے لئے حاضر آستانہ ہوئے تو دروازے کے باہر ہی بیٹھ گئے اور دل میں ہی یہ رباعی پڑھی اور کہا اگر محبوب الہی شیخ کامل ہیں تو میری رباعی کا جواب دیکر مجھے اندر بلوائیں گے

تواں شاہی کہ بر ایوان قصرت

کبوتر گر نشیند باز گر دد

غریبے مستمندے بر در آمد

بیا ید اندروں یا باز گردد


ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ حضرت محبوب الہی کے خادم خاص مبشر باہر آئے اور یہ رباعی پڑھی _

بیاید اندروں مرد حقیقت

کہ باما یک نفس ہم راز گردد


اگر ابلہ بوداں مردناداں

ازاں راہے کہ آمد بازگردد


اور کہا یہاں کوئی ترک آیا ہے _ حکم ہوا اندر آ جائے - امیر خسرو نے افضل الفوائد میں تحریر فرمایا ہے کہ میں مبشر کے ہمراہ اندر گیا اور سر زمین پر رکھ دیا حضرت نے ارشاد فرمایا - خوب آیا اور اچھا آیا اور شفقت فرماتے ہوئے شرف بیعت سے نوازا اور باریابی خاص اور کلاہ چہار ترکی عطا فرمائی _

پھر حضور محبوب الہی نے آپ پر اتنا کرم فرمایا کہ جس منزل کی حصول میں مہینوں لگ سکتے تھے آپ نے انھیں دنوں میں حاصل کیا اور چالیس سال تک آپ صائم الدہر رہے اور عشق الہی کی آگ آپ کے سینے میں اتنی تیز بھڑک اٹھی کہ اس کی سوزش سے جب بھی آپ لباس زیب تن فرماتے سینے کے پاس کا کپڑا جل جاتا _

بارگاہ مرشد میں مقبولیت

آپ کو اپنے پیرو مرشد سے والہانہ لگاؤ تھا اسی طرح پیر و مرشد کو بھی امیر خسرو سے بے پناہ محبت تھی -

حضور محبوب الہی نے فرمایا-

اگر شریعت میں اجازت ہوتی تو میں وصیت کرتا کہ خسرو کو میری قبر میں دفن کرنا - بعدہ آپ نے وصیت فرمائی تھی - امیر خسرو میرے بعد زندہ نہ رہ سکیں گے _ جب وہ وصال فرمائیں میرے پہلو میں دفن کیا جائے اور میں جنت میں قدم نا رکھوں گا جب تک امیر خسرو کو نہ ہمراہ لے لوں -


امیر خسرو شہنشاہ اقلیم سخن

خواجہ محبوب الہی کے نظر کرم کے پروردہ امیر خسرو فن شاعری میں ید طولی رکھتے تھے اور نا صرف فارسی، بلکہ عربی، ترکی، ہندی، ہر زبان میں آپ نے طبع آزمائی کی اور زبان میں آپ نے اپنے فن کا لوہا منوایا، جو چاشنی، شیرینی، سوز و گداز، تراکیب کی بندش، سلاست و روانی، فصاحت و بلاغت، طہارت و پاکیزگی آپ کے کلام میں موجود ہے وہ متقدمین شعراء عرفی، نظیری اور سعدی کے یہاں بھی نہیں پائی جاتی _

آپ اردو کے امیر کارواں بھی ہیں _

علم ظاہر و باطن کے سنگم

آپ کے علمی کمال پر نظر ڈالئے تو کوئی ادیب یا مصنف یا شاعر آپ کے فن کا جواب نہیں پیش کر سکتا اور آپ کے تقویٰ و طہارت، عبادت و ریاضت پر نظر ڈالئے تو آپ ایک بڑے عابد و زاہد نظر آتے ہیں اور اد وظائف کو چھوڑ کر صرف تہجد میں آپ سات پارے روزانہ تلاوت کرتے تھے -

اب تک جو تصانیف دریافت ہو سکی ہیں ان کی تعداد نوے بتائی جاتی ہے

خواجہ امیر خسرو اگر دن کو امارت اور وزارت میں کی مسند پر نظر آتے تو شب کو مالک حقیقی کے دربار میں نوافل و تہجد میں مشغول نظر آتے اگرچہ بادشاہوں سے تعلق، امراء سے میل جول رکھتے مگر انھیں کے ہوکر ہرگز ہرگز نہ رہے عزت، حشمت، ثروت سب کچھ رکھتے - لاکھوں روپئے بھی کماتے لیکن اپنے لئے نہیں بلکہ غرباء و مساکین میں پانی کی طرح بہاتے _

پیر و مرشد کا وصال

حضور محبوب الہی کے وصال کے وقت امیر خسرو موجود نہ تھے بلکہ سلطان محمد تغلق کے ساتھ لکھنوتی گئے ہوئے تھے جب پیر و مرشد کے وصال کی خبر ملی بادشاہ سے اجازت لے کر دہلی پہونچے اور اپنی ساری ملکیت خواجہ محبوب الہی کے ایصال ثواب کیلئے فقراء و مساکین پر لٹا دی_

اور خود سیاہ لباس زیب تن فرما کر مزار اقدس پر پہونچے اور سر ٹکرا کر ایک چیخ ماری -

سبحان اللہ _ آفتاب زیر زمین اور خسرو زندہ _ یہ کہہ کر بیہوش ہو گئے اور اس غم میں چھ ماہ تک زندہ رہ کر وصال فرمایا اس چھ ماہ میں شب و روز آستانہ عالیہ پر رہ کر جاروب کشی اور چراغ افروزی کی اور دن رات اپنے شیخ کے غم میں روتے رہے _

لوگوں کا کہنا ہے کہ متاخرین میں کوئی اتنا نہیں رویا جتنا امیر خسرو اپنے شیخ کے غم میں روئے حضور محبوب الہی کے وصال کے ٹھیک چھ مہینہ بعد ایک دن مزار اقدس پر حاضر ہوئے اور یہ شعر پڑھا _


گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈالے کیس

چل خسرو سانجھ بھئی گھر اپنے چودیس

اور بعدہ آپ کا وصال ہو گیا

18 شوال 725 ہجری میں آپکا وصال ہوا اپنے بعد آپ نے تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی


   ماخوذ

تاریخ الاولیاء

          کتبہ

صبغت اللہ فیضی نظامی




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney