آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

استاد کا ہاتھ چومنے کے لیئے حد رکوع تک جھکنا کیسا

سوال نمبر 100
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
 سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ سلام کرتے وقت دیکھا جاتا ہے کہ طالب علم استاذ کے سامنے اتنا جھک جاتے ہیں ہاتھ چومنے کیلئے کہ رکوع کی حالت میں آ جاتے ہیں تو کیا اتنا جھکنا درست ہے؟
اور ہاتھ چومنا کیا کسی حدیث سے ثابت ہے؟ 
مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں. 
سائل صبغت اللہ فیضی نظامی بھالوکونی ڈومریا گنج سدھارتھ.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمت اللہ
 الجواب صورت مسولہ کے تحت عرض ہے کہ بیشک اساتذہ پیر عالم دین بزرگان دین کے ہاتھ پاوں کو بوسہ دینا جائز ہے اور صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاوں کا بوسہ دیا ہے جس کا ثبوت حدیث شریف میں موجود ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے عن زارہ وکان فی وفد عبدالقیس قال لما قدمنا المدینہ فجعلنا نتبادر من روا حلنا فنقبل ید رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجلہ
ترجمہ حضرت زارہ جو وفد عبدالقیس میں سے تھے وہ فرما تے ہیں کہ جب ہم مدینہ میں آئے تو جلد اپنی سواریوں سے اتر پڑے اور ہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاوں کا بوسہ دیا (ابو داود شریف مشکوت شریف)
اور امام ترمذی نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ شریف جلد نمبر 22 جدید میں ہے
اور امام بخاری الادب المفرد میں اس کا ذکر کیا ہے
 اس حدیث کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرما تے ہیں ازیں جا تجویز پائے بوس معلوم شود
(اشعت المعات جلد چہارم)
اور علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرما تے ہیں لاباس فی تقبیل یدالرجل العالم والمتور ع علی سبیل التبرک(درمختا مع ردالمختار جلد پنچم)
اور فتاوی عالمگیر ی میں ہے ان قبل یدالعالم اوسلطان عادل لعلمہ و عدلہ لاباس فیہ یعنی اگر علم اور عدل کی وجہ سے عالم اور عادل بادشاہ کے ہاتھ کو چومے تو جائز ہے
یہاں تک کہ مخالفین کے پیشوا رشید احمد گنگوہی نے 
فتاوی رشیدیہ جلد اول 
کتاب الحضر والاباحت میں لکھتے ہیں کہ تعظیم دیندار کو کھڑا ہونا درست اور اور پاوں چومنا ایسے ہی شخص کا بھی درست ہے جو حدیث سے ثابت ہے
خلاصہ یہ کہ دست بوسی وقدم بوسی جائز ہے جس کا ثبوت حدیث شریف سے ہے
ہاں دست بوسی میں اتنانہ جھکے کہ رکوع کی منزل میں پہونچ جائے کہ یہ ناجائز ہے جیسا سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں حدیقہ ندیہ امام علامہ عارف باللہ سیدی عبدالغنی بانلسی میں ہے:الانحناء البالغ حد الرکوع لایفعل لاحد کالسجود ولا بأس بما نقص من حد الرکوع لمن یکرہ من اھل الاسلام یعنی حد رکوع تک جھکنا غیر خدا کے لئے جائز نہیں جیسے سجدہ اور حد رکوع سے کم میں حرج نہیں کہ کسی اسلامی عزت والے کے لئے جھکیں ( الحدیقہ الندیہ شرح الطریقہ محمدیہ الخلق الثانی عشر مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/ ۵۴۷)
اورفتاوی عالمگیر ی جلد پنچم میں ہے الانحناء لسلطان اولغیرہ مکروہ لانہ یشبہ فعل المجوس
واللہ اعلم بالصواب
                  طالب دعا
محمد وسیم فیضی رضوی



ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ!
    سلام کے بعد عرض یہ ہے، کہ یہ لائیٹنک جو اس ویب سائٹ کی تھیم پر لگائی گئی ہے، یہ کنفیوز کرتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

Created By SRRazmi Powered By SRMoney