سوال نمبر 560
السلام علیکم و رحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام درج ذیل واقعہ میں کہ کیا یہ واقعہ درست ہے؟
واقعہ :- جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کربلا جانے لگے تو حضرت سکینہ نے آکر آپ کے گھوڑے کا پاؤں پکڑ لیا جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں
سائل:- محمد غفران نوری بریلی شریف
وعلیکم السلام و رحمة الله وبركاته
الجواب بعون الملک الوھاب
حضرت سکینہ اور گھوڑا
"کربلا سے متعلق ایک جھوٹا واقعہ"
یہ واقعہ بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے کسی بھی مستند کتاب سے یہ واقعہ ثابت نہیں ہے،
ہاں یہ واقعہ شہید ابن شہید نامی کتاب میں مذکور ضرور ہے لیکن یہ کتاب کوئی معتبر و مستند کتاب نہیں ہے
بلکہ یہ ایک ایسے شخص کی لکھی ہوئی کتاب ہے جو بہت بڑا کاذب تھا
صائم چشتی یہ کون تھا ؟
صائم چشتی مصنف شھید ابن شھید
میری معلومات کے مطابق یہ تفضیلی گروہ سے تعلق رکھتا تھا
تفصیل کے لیے (میزان الکتب) کا مطالعہ فرمائیں۔
صرف تفضیلی نہیں ، غالی قسم کا تفضیلی تھا ( دشمنان امیرمعاویہ کا علمی محاسبہ) کتاب مصنف شیخ الحدیث محمد علی نقشبندی علیہ الرحمہ نے اس کی ایسی باتیں نقل کی ہیں جو کہ صریح کفر ہیں..... جیسا افضليت ائمہ اہل بیت علی الانبیاء... صرف تفضیلی نھیں بلکہ انتہا درجے کا جھوٹا اور بہتان تراش بھی تھا. (ایمان ابوطالب) نامی کتاب میں اور (مشکل کشا) نامی کتاب میں اس نے امام اہلسنت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃاللہ علیہ کی عبارات میں کمال درجہ کی بد دیانتی کی ہے
بلکہ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرھندی رحمۃاللہ علیہ کی طرف بھی جھوٹی عبارات منسوب کی ہیں
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ذات مبارکہ پر شدید تنقید کی. اور یہ کیوں نہ کرتا اس کا پیر محمود شاہ محدث ہزاروی بھی انتہائی خبیث الباطن آدمی تھا.
یہ اس کا خلیفہ جو ہوا ، ثبوت کے لیے کتاب (خلفاے محدث ہزاروی) دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ سنیوں میں سنی بنکر گھسا ہوا تھا یہ جھوٹے حوالے اور درجنوں من گھڑت بے اصل واقعات کا موجود بھی ہے
اس کی ایک کتاب نہیں بلکہ کئی کتابیں ہیں جو من گھڑت واقعات سے بھرے ہوئے ہیں
انہیں کتابوں میں سے ایک کتاب ہے
شہید ابن شہید جس میں موصوف نے بیان کیا ہے اور کئی مقررین سے یہ واقعہ سنا بھی گیا کہ
جب یزیدی ھل من مبارز پکار رہے تھے سارے محبان حسین یکے بعد دیگرے شہید ہو چکے تھے اب امام عالی مقام کی باری تھی آپ جب گھوڑے پر سوار ہوئے تو گھوڑا ہلنے کا نام نہیں لے رہا تھا ایسا لگتا تھا کہ گھوڑے کا پاؤں کو زمین نے پکڑ لیا ہے مختصر یہ کہ امام نے نیچے دیکھا تو معصوم سکینہ گھوڑے کے پیروں سے لپیٹی ہوئیں تھیں - - - - الخ--------
تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ سیدنا امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو چھ اولاد تھیں جن میں دو بیٹیاں تھیں اور سنی شیعہ کتب کی روشنی میں سیدہ سکینہ رضی اللہ عنہا اس وقت بچی نہیں تھیں، سوانح کربلا میں ہے کہ آپ سات سال کی تھیں خیر کتاب شہید ابن شہید میں کہنا ہے کہ آپ نے حضرت سکینہ کو گود میں اٹھا لیا بوسہ لیا اور فرمایا بیٹی ان معصومانہ کوششوں سے ہمارے دل کو چھلنی نہ کرو یہ ساری باتیں صائم چشتی تفضیلی کی اختراع یے ۔ ۔
ذرا سوچیے
حضرت سکینہ جو کہ سات سال کی تھیں ، ان کے بارے میں کہنا کہ امام حسین نے انہیں گود میں لیا اور وہ گھوڑے کے پاؤں سے لپٹ گئیں، یہ کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اہل بیت نے اس طرح سے بے صبری کا مظاہرہ کیا ہو۔ یہ سب باتیں بالکل جھوٹ ہیں اور کسی معتبر کتاب میں موجود نہیں ہے۔
کچھ لوگ بجائے اپنی اصلاح کرنے کے،
اپنی تقریر میں چار چاند لگانے اور اپنے بازار کو چمکانے کے لیے ایسے قصوں کو خوب رو رو کر بیان کرتے ہیں اور لوگوں کی عقیدت اور محبت کے ساتھ کھلواڑ کیا کرتے ہیں ۔
اتنی چیزیں جاننے کے بعد بھی اگر کوئی اس واقعہ کو بیان کرتا ہے تو اب اس کے بارے میں ہم کیا کہیں
اللہ تعالٰی ہمیں اہل بیت کی طرف ایسے جھوٹے قصوں کو منسوب کرنے سے بچائے اور ان کی شانوں کے لائق ان کی تعظیم و تکریم کرنے اور ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
واللہ تعالی اعلم
کتبہ
گداے حبیب ملت محمد سالک رضا حبیبی
اڈیشا جالیسر پچھم باڑ
رابطہ نمبر 8658828312
2 تبصرے
ماشاء اللہ بہت اچھی جانکاری حاصل ہوئی
جواب دیںحذف کریںجناب والا ! کسی کے بارے میں بغیر تحقیق کے بہتان تراشی بہت بڑا گناہ ہے ۔ آپ حضرت علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت سے واقف نہیں ہیں ۔ حضرت علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نائب اعلیٰ حضرت حضرت مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ جامعہ رضویہ کے فارغ الحصیل تھے۔ مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو شیر اہلسنت کاخطاب دیا ۔ اگر آپ کے بقول حضرت علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک درست نہیں تھاتو ان کی کتب پر جن علماء کرام کی تقاریظ و تاثرات موجود ہیں ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ۔ ان علماء و مشائخ میں حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ ۔ مولانا عبدالغفور ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ ،مولانا عطاء محمد بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ ، قطب مدینہ ، حضرت ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ حضرت مولانا غلام رسول رضوی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت سید علی حسین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر علماء ان شخصیات کے بارے میں بھی کچھ تاثرات بیان فرما دیں جنہوں نے حضرت صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب پر تقاریظ و تاثرات لکھے ہیں ۔عاشقِ رسول ، عاشقِ اہلِ بیت ، مفسر قرآن فنافی الرسول ، نائب حسان ، بانی شہرِ نعت حضرت علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے وہابیوں ، دیوبندیوں ، خارجیوں ، رافضیوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور تا دمِ آخر اس پر ڈٹے رہے ۔
جواب دیںحذف کریں