کیا آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

سوال نمبر 886

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنا کیسا ہے حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی؟ سائل محمد عباس اشرفی کچھوچھہ شریف





وعلیکم السلام ورحمت اللہ و برکاتہ 
الجواب روزے کی حالت میں آنکھ میں دوائی ڈالنے میں حرج نہیں کیوں کہ اس کے بارے میں ضابطہ کلیہ یہ ہے کہ جماع اور اس کے ملحقات کے علاوہ روزہ توڑنے والی صرف وہ دوا اور غذا ہے جو مسامات اور رگوں کے علاوہ کسی منفذ سے صرف دماغ یا پیٹ میں پہنچے  (درمختار جلد دوم صفحہ 410 میں ہے) الضابط وصول مافیہ صلاح بدنہ لجرفہ وفی ردالمحتار الذی ذکرہ المحققون ان منعی المفطر وصول مافیہ صلاح البدن الی الجوف اعم من کونہ غذاءًاو دواء  اور ظاہر ہے کہ وہ دوا جو آنکھ میں ڈالی جائے گی اس کا اثر مسام ہی کے ذریعہ ظاہر ہوگا اسلئے کہ آنکھ سے پیٹ یا دماغ تک کوئی دوسرا منفذ نہیں اور یہ مفسد صوم نہیں
( تبیین الحقائق جلد اول صفحہ 323 میں ہے) "والداخل من المسام لا ینافیہ علی ماذکرنا ولا نہ مایجدہ فی حلقہ انر الکحل لاعینہ فلا یضرہ کمن ذاق الدواء ووجد طعمہ فی حلقہ ولا یمکن الامتاع عنہ فصار کالغبار والدخان وفی فتاوی الھندیہ فی الجزء الا ول وماید خل من مسام البدن من الدھن لا یفطر ھکذافی شرح المجمع اب اس سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ روزے کی حالت میں آنکھ میں دوائی ڈالنے میں حرج نہیں مزید برآں ("عالمگیریہ جلد اول صفحہ 203 میں ہے )"ولو اقطر شیئا من الدواء فی عینہ لایفطر صومہ عندنا وان وجد طمعہ فی حلقہ واذا بزق فرأی انر الکحل ولونہ فی بزاقہ عامۃ المشائخ علی انہ لا یفسد صومہ کذافی الذخیرۃ وھوالاصح ھکذافی التبیین" اور"(" درمختار جلد دوم صفحہ 395 میں ہے )"لو ادھن او الکتحل او احتجم وان وجد طعمہ فی حلقہ" اور اسی کے تحت شامی میں ہے " ای طعم الکحل او الدھن کما فی السراج وکذا لو بزق فوجد لونہ فی الاصح بحر قال فی النھر لان الموجود فی حلقہ اثر داخل من المسام الذی ھو خلل البدن والمفطر انما ھوالداخل من المنافذ "(ماخوذ فتاویٰ بریلی شریف صفحہ 371 ")
       کتبہ
واللہ اعلم باالصواب 
محمد ریحان رضا رضوی 
فرحاباڑی ٹیڑھاگاچھ وایہ بہادر گنج 
ضلع کشن گنج بہار انڈیا موبائل نمبر 6287118487






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney