فطرہ نکالنے کاحکم کیوں؟

سوال نمبر 887

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مسئلہ:-- کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ فطرہ کی تعریف کیا ہے؟اور فطرہ نکالنے کا حکم کیوں ہے؟
بینواتو جروا
المستفتی:- حافظ جلا ل الدین پنجاب





وعلیکم والسلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
فطرہ یا”افطار“سے ہے یا ”فطرۃ“سے چونکہ یہ ماہ رمضان گزر جانے اور عید کے دن افطار کرنے پر واجب ہوتا ہے اس لئے اس کو فطرہ کہا جاتا ہے یا بچہ پیدا ہوتے ہی اس کی طرف سے باپ پر ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے لہٰذا فطرہ ہے،اصطلاح شریعت میں عید کے دن جو مالدار پر رمضان کا صدقہ واجب ہوتا ہے وہ فطرہ ہے۔
(مراۃ المناجیح جلد سوم باب صدقۃ الفطر)
اور لغت میں فطرہ کا معنیٰ ہے ”عید رمضان کا صدقہ جو فی آدمی سوا دو سیر گیہوں یا چار سیر جو مقرر ہیں اور نماز عید سے قبل غرباء کو دئے جاتے ہیں۔ (فیروزالغات ص ۹۳۴)
روزوں کی بیہودہ باتوں اور لغو باتوں سے پاک کرنے کے لئے،نیز غربا و مساکین کی مدد کے لئے فطرہ نکالنے کا حکم ہوا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ”وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُہْرَ الصِّیَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لَلْمَسَاکِیْنِ،رواہ أبو داود“ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ)  سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے روزوں کی بیہودہ باتوں اور لغو کلام سے پاک کرنے کے لئے نیز مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر لازم قرار دیا ہے۔
(مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر ۳۱۸۱/باب: صدقہ فطر کا وجوب کیوں؟)  
اس حدیث کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ” فطر واجب کرنے میں دو حکمتیں ہیں،ایک تو روزہ دار کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی،اکثر روزے میں غصہ بڑھ جاتا ہے تو بلا وجہ لڑ پڑتا ہے،کبھی جھوٹ، غیبت وغیرہ بھی ہوجاتے ہیں، رب تعالٰی اس فطرے کی برکت سے وہ کوتاہیاں معاف کر دیا کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں دوسرے مساکین کی روزی کا انتظام۔
(مراۃ المناجیح جلد سوم باب صدقۃ الفطر الفصل الثانی)
واللہ اعلم بالصواب
کتــــــــــــــــــبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
۵/رمضان المبارک ۱۴۴۱؁ھ
۲۹/ اپریل ۰۲۰۲؁ء بروز بدھ






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney