کیا رابعہ بصری کے استقبال کو کعبۃ اللہ گیا تھا ؟

سوال نمبر 197

 حضرت رابعہ بصریہ رضی اللہ عنہا سفر حج کے ذکر میں یہ واقعہ خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے کہ کعبہ آپ کے استقبال کو گیا تھا  گروپ کے منتظیمین و مفتیان کرام  مدلل ومفصِّل  جواب عنایت فرمائے کرم نوازش ہوگی.                      سائلہ صنوبر ناز سلطانی صاحبہ کسیرامہینگاؤں کشن گنج بہار انڈیا




الجواب ھوالموفق للحق والصواب

حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ فرماتے ہیں کہ  آپؒ نے طویل عبادت و ریاضت کی زندگی بسر کی اور اس دوران حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی چنانچہ آپ ایک گدھے پر سامان لاد کر چل پڑیں۔ آپ کا یہ گدھا بہت نحیف تھا، سفر کی صعوبتیں برداشت نہ کر سکا اور راستے ہی میں مر گیا قافلے والوں نے ازراہِ ہمدردی کہا کہ کوئی بات نہیں ہم آپؒ کا سامان اٹھالیں گے آپؒ اپنا سفر ہمارے ساتھ جاری رکھیں آپؒ نے قافلے والوں سے فرمایا کہ آپ جائیں میں نے یہ سفر اپنے پروردگار کے بھروسے اور توکل پر شروع کیا تھا۔ قافلے والوں نے یہ سنا تو خاموش ہوگئے اور آپؒ کو تنہا چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔ اب آپ جنگل میں اکیلی تھیں، آنسووں کا دریا آپؒ کی آنکھوں سے رواں تھا۔ آپؒ نے فرمایا اے ربّ العزت تو نے ہی مجھے خانہ کعبہ کی زیارت کیلئے بلایا تھا اور اب تو ہی مجھے اس سے روک رہا ہے راستے میں میرے گدھے کو مار ڈالا اور مجھ کو جنگل میں تنہا چھوڑ دیا۔ اے ربّ العالمین! میں کمزور ہوں تیرے دیدار کی پیاسی ہوں مجھ پر اپنا فضل و کرم کر۔ ابھی آپ دعا میں مصروف ہی تھیں کہ گدھا اٹھ کھڑا ہوا ، آپؒ بہت خوش ہوئیں۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنا سامان دوبارہ گدھے پر لاد کر مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوگئیں۔جب آپؒ وہاں پہنچیں آپؒ نے دیکھا کہ کعبہ خود آپؒ کے استقبال کیلئے چلا آرہا ہے آپؒ ٹھہر گئیں اور فرمایا ’’اے پتھر کے مکاں واپس لوٹ جا مجھے تیری پتھریلی دیواروں کی ضرورت نہیں بلکہ میں تواس محبوب سے ملنے کی متمنی ہوں جس کا یہ گھر ہے مجھے تیرے حُسن سے زیادہ جمالِ خداوندی کی تمنا ہے۔‘‘
یہی وہ دن تھا جب حضرت ابراہیم بن ادہمؒ ہر قدم پر دورکعت نماز ادا کرتے ہوئے چودہ سال میں مکہ معظمہ پہنچے تھے۔ جب آپ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ اپنی جگہ پر موجود نہیں تھا آپؒ نے خیال کیا کہ شاید میری بصارت زائل ہوگئی ہے یا شاید میری عبادت و ریاضت ضائع ہو گئی ہے لیکن اسی وقت غیب سے ایک ندا آئی کہ ’’اے ابراہیم! نہ تو تمہاری بصارت زائل ہوئی ہے اور نہ تمہاری ریاضت ضائع ہوئی ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خانہ کعبہ واقعی اپنی جگہ پر موجود نہیں کیونکہ وہ ایک ضعیفہ کے استقبال کے لئے گیا ہوا ہے۔‘‘ حضرت ابراہیم بن ادھمؒ نے جب یہ سنا تو آپ پر رقت طاری ہوگئی روتے ہوئے پوچھا اے اللہ! وہ قابلِ احترام کون ہے؟ جواب ملا سامنے دیکھ آپؒ نے دیکھا کہ حضرت رابعہ بصریؒ لاٹھی کے سہارے چلی آرہی ہیں اور خانہ کعبہ بھی اپنے مقام پر واپس آچکا ہے۔ پھر آپ دونوں نے حج ادا کیا حضرت رابعہ بصریؒ نے انتہائی عاجزی سے اللہ کو پکارا اے مالک تو نے حج پراجر کا وعدہ کیا ہے اور مصیبت پر صبر کرنے پر بھی لہٰذا اگر میرا حج قبول نہیں تو مصیبت پر صبر کرنے کا اجر ہی عطا کردے کیونکہ حج کی عدم قبولیت سے زیادہ اور کون سی مصیبت ہو سکتی ہے حج سے فارغ ہو کر حضرت رابعہ بصری ؒ واپس تشریف لائیں اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئیں۔

ھذاماظھرلی والعلم عنداللہ

کتــبه
منظور احمد یارعلوی






ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. کعبہ شریف کا غائب ہونا یہ روحانیت کے اعتبار سے تھا
    ایسا نہیں تھا کہ زمین پر باقی زائرین کو نظر ہی نہیں آرہا تھا
    جب ابراہیم بن ادہم نے روحانی آنکھ سے دیکھا تو کعبہ کو وہا ں نہیں پایا ۔

    جواب دیںحذف کریں

Created By SRRazmi Powered By SRMoney