جس کے پاس زرعی زمین ہو اور آمدنی نا ہو تو کیا قربانی واجب ہے؟ ‏


        سوال نمبر 1671 

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے گھر میں اُس کی والدہ، مطلّقہ بہن اور خود زید کی بیوی بچے رہتے ہیں اور یہ سب زید کی زیرِ کفالت ہیں،اب مسئلہ یہ ہے کہ زید کی والدہ کے پاس آدھا تولہ سے کچھ کم سونا ہے جس کی قیمت پینتیس سے چالیس ہزار ہوگی اور تقریباً آدھا ایکڑ زرعی زمین اپنے شوہر کی میراث سے حصے میں آئی ہے اور فی الوقت زمین کے ذریعے آمدنی آنا شروع نہیں ہوئی ہے کیونکہ زمین پر ابھی باغ لگوایا ہے، اور زید کی ملازمت بہت اچھی ہے اور وہ اپنی والدہ پر اچھا خرچ کرتا ہے لہٰذا والدہ کو پیسوں کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہے، تو اس صورت میں کیا والدہ پر قربانی واجب ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ زید کی مطلّقہ بہن کی ملکیت میں تقریباً سوا تولہ سونا ہوگا اور اپنے والد کی میراث سے حصے میں آنے والی سوا ایکڑ یعنی تقریباً دس کنال زرعی رقبہ زمین ہے، جس کی قیمت تقریباً پندرہ سولہ لاکھ ہوگی، تو کیا اس پر قربانی واجب ہے، واضح رہے کہ جس طرح والدہ کی گزر بسر زمین پر منحصر نہیں، یونہی زید کی ہمشیرہ کا بھی معاملہ ہے اور دونوں پر قرض بھی نہیں ہے؟

المستفتی :محمد ارسلان،پاکستان،سیالکوٹ


باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

صورتِ مسئولہ میں زید کی والدہ اور اُس کی ہمشیرہ پر قربانی واجب ہے کیونکہ دونوں صاحبِ نصاب ہیں اور نصاب اُن کے قرض اور ضروریاتِ زندگی میں مستغرق بھی نہیں ہے۔

   چنانچہ وُجوبِ قربانی کی شرائط بیان کرتے ہوئے علّامہ ابو الحسن احمد بن محمد قدوری حنفی متوفی428ھ لکھتے ہیں:

الاضحیۃ واجبۃ علی کل حر مسلم مقیم موسر فی یوم الاضحی عن نفسہ۔(مختصر القدوری مع  شرحہ الجوھرۃ النیرۃ،کتاب الاضحیۃ،449/2۔450)

یعنی، قربانی ہر آزاد، مسلمان، مقیم اور مالدار پر ایامِ نحر میں اپنی طرف سے کرنا واجب ہے۔

   اور قربانی واجب ہونے کا نصاب بیان کرتے ہوئے امام علاء الدین ابی بکر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی587ھ لکھتے ہیں:

فلا بد من اعتبار الغنیٰ وھو ان یکون فی ملکہ مائتا درھم او عشرون دیناراً او شیء تبلغ قیمتہ ذلک سوی مسکنہ وما یتاثث بہ وکسوتہ وخادمہ وفرسہ وسلاحہ وما لا یستغنی عنہ وھو نصاب صدقۃ الفطر۔(بدائع الصنائع،4/196)

یعنی، قربانی واجب ہونے میں مالداری کا اعتبار ہونا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اُس کی ملکیت میں دو سو درہم (ساڑھے باون تولہ چاندی) یا بیس دینار (ساڑھے سات تولہ سونا) ہوں یا رہائش، خانہ داری کے سامان، کپڑے، خادم، گھوڑا، ہتھیار اور وہ چیزیں جن کے بغیر گزارہ نہ ہو، ان کے علاوہ کوئی ایسی چیز ہو جو دو سو درہم یا بیس دینار کی قیمت کو پہچنتی ہو، اور یہی صدقہ فطر کا نصاب ہے۔

    اور کھیت جس کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو، اُس کے مالک پر قربانی واجب ہے۔چنانچہ فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی حنفی متوفی1422ھ سے دریافت کیا گیا کہ زید کے قبضہ میں ایک بیگہہ کھیت ہے جس کی قیمت پانچ ہزار روپے ہیں زید کے پاس اور کسی مال کا نصاب نہیں اس صورت میں زید پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟ تو آپ علیہ الرحمہ نے جواباً ارشاد فرمایا:زید مالکِ نصاب ہے اور اُس پر قربانی واجب ہے کہ کھیت جس کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہے وہ وجوبِ قربانی اور فطرہ کے لئے کافی یے۔

(فتاوی فیض الرسول،438/2)

   اور ایک مقام پر لکھتے ہیں:جس شخص کے پاس کھیتی کی زمین اتنی ہے کہ اگر اس کو بیچ ڈالے تو نصاب سے کئی گنا زیادہ ہوجائے تو وہ شخص مالک نصاب ہے، اور اس پر قربانی وفطرہ واجب ہے۔

(فتاوی فیض الرسول،442/2)

   لہٰذا ثابت ہوا کہ زید کی والدہ اور اُس کی بہن پر قربانی واجب ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

      کتبہ

محمد اُسامہ قادری

متخصص فی الفقہ الاسلامی

پاکستان،کراچی

6،ذو الحجہ1442ھ۔16جولائی2021







ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney