کورٹ میرج کرنا کیسا ہے؟

سوال نمبر 748

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام   زید نے ھندہ کے ساتھ بھاگ کر کورٹ سے  نکاح کیا، تو
 کیا وہ نکاح مانا جائے گا؟ اور یہ بھی بتا دیجیے حضرت لڑکی لڑکا سنی ہیں اور نکاح پڑھانے والا وہابی ہے  کیا نکاح ہو جائے گا؟ جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل محمد عباس اشرفی کچھوچھہ شریف 








الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
کورٹ میرج میں ایجاب و قبول شرعی اگر گواہان شرعی کی موجودگی میں ہوا تو نکاح  منعقد ہو جاتا ہے ، اور اگر ایجاب و قبول شرعی گواہان شرعی کی موجودگی میں نہ ہوئے تو نکاح منعقد نہ ہوگا،
چونکہ کورٹ میں عموماً ایجاب و قبول کی جگہ اقرار و اخبار ہوتے ہیں نیز نصاب بھر شرعی گواہان بھی لازمی نہیں ٹھہرائے جاتے، اس لئے اس امر پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے! 

درمختار میں ہے

" النکاح ینعقد بایجاب و قبول"
"یعنی نکاح ایجاب و قبول سے منعقد ہوتا ہے"
( الدرمختار جلد ٢صفحہ ٢٨٥)
مطلب یہ کہ اگر ایجاب و قبول بطورِ انشاء ہونے لازم ہیں، نہ ہوئے بلکہ محض اقرار و اخبار ہی ہوئے تو نکاح منعقد نہ ہوگا،

 اور اسی کے  متعلق علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
"ان الشرع یعتبر الایجاب والقبول ارکان عقد النکاح ملخصا
( ردالمحتار جلد دوم صفحہ ٢٨٥)

 اور فتاوی عالمگیری میں ھے

 " و منھا الشھادۃ قال عامۃ العلماء انھا شرط جواز النکاح ھکذا فی البدائع الی قولہ بحضرۃ الکفار فی نکاح المسلمین ھکذا فی البحرالرائق "
( فتاوی عالمگیری جلد اول صفحہ ٢٦٧)

عالمگیری میں ھے

" رجل و امرأۃ اقرا بالنکاح بین یدی الشہود و قالا بالفارسیۃ ما زن وشویئم لا ینعقد النکاح بینھما ھو المختار کذافی الخلاصۃ"
"یعنی کسی مرد اور عورت نے گواہوں کے سامنے نکاح کا اقرار کیا، اور دونوں نے فارسی میں کہا،" مازن و شوئیم" جسکا اردو ترجمہ ہے" ہم میاں بیوی ہیں"،تو دونوں میں نکاح منعقد نہ ہوگا، یہی مذہبِ مختار ہے"
ایسا ہی خلاصہ میں ہے،

پس جب تک ایجاب و قبول شرعی گواہان شرعی کے سامنے ہونا نہ پایا جائے گا نکاح ہرگز کورٹ میرج سے منعقد نہ ہوگا،

چونکہ کورٹ میں یہ ہوتا ہے کہ لڑکی، لڑکا اپنے بالغ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اور حاکم اس بات کو جاننا چاہتا ہے کہ وہ دونوں بغیر دباؤ کے اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتے ہیں،، پس بالغ ہونے اور بغیر دباؤ اپنی مرضی سے شادی کرنے کی درخواست شرعًا نہ ایجاب و قبول ہو سکتا ہے اور نہ گواہان شرعی کے حضور ہی ہونے کو مستلزم، تو رکن اور شرط دونوں مفقود ہوئے جو نکاح کی صحت کے لئے لازم تھے،

" وإذا فات الشرط فات المشروط"
"شرط مفقود ہوئی تو مشروط بھی مفقود ہوا"

اور اگر کورٹ میرج میں ایجاب و قبول شرعی تو ہوئے گواہان شرعی کی موجودگی میں مگر لڑکا لڑکی کا کفو نہیں ہے تو بغیر اجازتِ ولی یہ نکاح بھی منعقد نہیں ہوگا،
" لعدم الکفاءۃ " کفو نہ ہونے کے سبب،

(٢) اور سنی سنیہ کا گواہوں کی موجودگی میں وہابی کے ایجاب و قبول کرانے سے نکاح ہوجائے گا کیونکہ قاری و قاضی محض معبر و سفیرِ ہوتے ہیں، اور معبر و سفیر یعنی فضولی کا پڑھا ہوا نکاح درست ہوتا ہے، مگر وہابی یا کسی کافر و بد مذہب کو نکاح پڑھانے کیلئے قاضی یا قاری نکاح بنانے میں اس کی تعظیم ہے جو ناجائز و حرام ہے ۔

"قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام"
"یعنی جس نے بدعتی کی توقیر کی اس نے اسلام کے گرانے پر مدد کی"
( مشکوۃ المصابیح صفحہ ٤١)


واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم بالصواب
        از 
العبد محمد عمران القادری التنوریری عفی
 دارالعلوم اہلسنت محی الاسلام بتھریا کلاں ڈومریا گنج سدھارتھ نگر یو پی
١٢ رجب المرجب  ١٤٤١ ہجری
٨     مارچ     ٢٠٢٠    عیسوی






ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney