امام کی تنخواہ کا چندہ خود رکھ لینا کیسا

 سوال نمبر 2465


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسجد کے امام کے نام سے تنخواہ گاؤں والے دیتے ہیں اس میں سے کچھ رقم مسجد کے نام سے رکھ لینا کیسا ہے مثلاً امام صاحب کی تنخواہ آٹھ ہزار ہے اب چندہ اس سے زیادہ ہوتا ہے تو امام کی اجازت کے بغیر سیکریٹری مسجد میں رکھ لیتا ہے تو کیا یہ صحیح ہے؟ 

(سائل: محمد نوشاد رضا نوری، ارریہ بہار)





وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب: صورتِ مسئولہ میں اگر وہاں پر امام کو تنخواہ دے کر باقی فنڈ مسجد میں رکھ لینا معروف ہو یعنی یہ بات چندہ دینے والوں کو معلوم ہو اور وہ اس سے منع نہ کرتے ہوں تو دلالۃً اجازت ہونے کی وجہ سے مسجد سیکریٹری کا عمل جائز ہے کیونکہ جو چیز مشہور ہو وہ طے شُدہ معاملے کا حکم رکھتی ہے۔

   چنانچہ علامہ لسان الدین ابن شحنہ حنفی متوفی ٨٨٢ھ لکھتے ہیں: المعروف کالمشروط۔

(لسان الحکام فی معرفۃ الأحکام، الفصل التاسع فی أنواع الضمانات الواجبۃ إلخ، ص ١٣٦)

   یعنی، معروف کا حکم مشروط کے حکم کی مثل ہوتا ہے۔

   اور دلالۃً اجازت صریح اجازت کے قائم مقام ہوتی ہے۔

   چنانچہ علامہ علی حیدر خواجہ امین آفندی حنفی متوفی ١٣٥٣ھ لکھتے ہیں: الإذن دلالۃً کالإذن صراحۃً فی الحکم غیر أنہ إذا کان نھی ومنع صریحین فلا یلتفت إلی الإذن دلالۃً۔ ملخصًا

(درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، کتاب الأمانات، الباب الأول فی بیان بعض الأحکام إلخ، ٢٢٠/٦/٢)

   یعنی، دلالۃً اجازت حکم میں صریح اجازت کی طرح ہے مگر جبکہ واضح طور پر ممانعت ہو تو دلالۃً اذن کی جانب التفات نہیں کیا جائے گا۔

   اور اگر یہ معروف نہ ہو تو فنڈ کی تمام رقم امام کی تنخواہ میں صَرف کرنا لازم ہے، چندہ دہندگان کی اجازت کے بغیر دیگر مَصرف میں صَرف کرنا حرام ہے۔

   چنانچہ چندے کے مَصرف کے بارے میں امام احمد رضا خان حنفی متوفی ١٣٤٠ھ لکھتے ہیں: جس طرح مصارفِ خیر کے چندے ہوتے ہیں ایسی حالت میں وہ روپیہ ملکِ مالک پر رہتا ہے اور اس کی اجازت سے اُسی مصرفِ خیر میں صَرف ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر کچھ بچے تو اسے واپس دینا یا اس کی اجازت و رضا سے کسی اور مَصرف میں صَرف کرنا لازم ہوتا ہے۔

(فتاوی رضویہ، کتاب الأمانات، ١٦١/١٩)

   اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی ١٣٤٠ھ لکھتے ہیں: چندہ دینے والے جس مقصد کے لیے چندہ دیں یا کوئی اہلِ خیر جس مقصد کے متعلق اپنی جائداد وقف کرے اُسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صَرف کی جاسکتی ہے۔ دوسرے میں صَرف کرنا جائز نہیں۔

(فتاوی امجدیہ، کتاب الوقف، ٤٢/٣/٢)

   اس صورت میں اگر امام کے نام پر جمع ہونے والا فنڈ اس کی تنخواہ سے زیادہ ہو جائے تو بقیہ رقم جمع کرکے رکھ لی جائے اور اسے امام کی تنخواہ ہی میں استعمال کیا جائے مثلاً امام کی تنخواہ آٹھ ہزار ہے اور امام کے لئے ملنے والا چندہ بارہ ہزار ہو تو بقیہ چار ہزار سنبھال کر رکھ لئے جائیں تاکہ آئندہ تنخواہ میں اس رقم کو استعمال کیا جاسکے یا پھر چندہ دینے والوں سے جبکہ وہ معلوم ہوں مسجد کے دیگر اخراجات میں استعمال کرنے کی اجازت لے لی جائے کیونکہ پہلے حاصل کیا گیا چندہ صرف امام کے نام پر دیا گیا ہے۔


واللہ اعلم بالصواب


منگل، ١٦/ ربیع الآخر، ١٤٤٥ھ ۔ ٣١/ اکتوبر، ٢٠٢٣ھ


کتبہ:


محمد اُسامہ قادری

پاکستاں، کراچی







ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

  1. کیا غوث پاک فرشتوں کے بھی پیر ہیں جواب مع حوالہ سے نوازیں مہربانی ہوگی

    جواب دیںحذف کریں

Created By SRRazmi Powered By SRMoney