سوال نمبر 75
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
 سوال  کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان عظام کہ جمعہ کے دن بچے شور و غل کرتے ہیں زید کہتا ہے کہ ایسے بچوں کو نہیں لانا چاہئے.. بکر کہتا ہے کہ لانا چاہئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حوالہ پیش کرتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ جس دن مسجد کے پیچھے سے بچوں کی آواز آنا بند ہو جائے،،،،،، الآخر،،،،،
زید بھی قانون شریعت کا حوالہ پیش کرتا ہے
کون حق پر ہے اور چھوٹے بچوں کو لانا چاہئے کہ نہیں
سائل غلام ربانی خان گوبند پور ہزاری باغ جھارکھنڈ انڈیا
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
 بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجواب سوال صاف اور واضح کرنا چاہئے نہ کہ گول مول."جمعہ کے دن بچے شوروغل کرتے ہیں"اس سے کیا مراد ہے؟
اگر اس سے مراد یہ ہے کہ مسجد میں بچے جمعہ کے روز آکر شوروغل کرتے ہیں(اغلب ہے کہ یہی مراد ہے) تو یہ حرام ہے خواہ بچے ہوں یا بڑے جمعہ کا دن ہو یا اور کوئی دن کسی کو کسی وقت مسجد میں یہ حرکت روا نہیں.
فتاوی رضویہ میں ہے-
"مسجد میں شوروشر کرنا حرام ہے" (ج:٣،ص:٦٠٣)
مساجد تو عبادت،تلاوت اور ذکر الٰہی کے لیے ہیں نہ کہ شورو غل کے لیے.
حدیث شریف میں ہے-:
"إنما ھی لذکر اللہ والصلوۃ و تلاوة القرآن"یعنی مساجد ذکر الٰہی، نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں. (مسلم شریف،ج:١،ص:
١٣٨،باب وجوب غسل البول)
مساجد کو ہر طرح کی آلودگی سے بچانا ضروری ہے اسی لئے شریعت طاہرہ نے ناسمجھ بچوں(جن سے مسجد کی آلودگی کا اندیشہ ہو) کو مسجد میں آنے پر پابندی لگا دی ہے. جیسا کہ حدیث پاک میں ہے. رسول اللہ صلی اللہُ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا- جنبوا مساجدکم صبیانکم و مجانینکم وشرائکم و بیعکم..... الخ "مساجد کو بچوں اور پاگلوں اور بیع و شرا سے بچاؤ......" (ابن ماجہ،ج:١،ص:٤١٥،ابواب المسا جد)
امام الفقہا سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ-"یہاں مسجد میں چھوٹے چھوٹے بچے ہر وقت پھرتے رہتے ہیں کبھی صحن میں کبھی حوض میں کنکر پتھر ڈالتے اور کبھی مسجد کے نل کو - - - - - - مسجد میں جمع رہتی ہیں اکثر لوگ اپنے بچوں کو خود ہم راہ لاتے ہیں اکثر نماز ہوتی ہے اور یہ لوگ شور مچاتے ہوتےہیں اگر کوئی شخص ان کے والدین سے کہتا یا بچوں کو ڈانٹتا ہے تو وہ لوگ لڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں؟
تو اس کے جواب میں آپ نے ارقام فرمایا- "جو لوگ مساجد میں اپنے بچوں کو لاتے ہیں یا ان کے بچے جاتے ہیں اور وہ انہیں نہیں روکتے روکنے والوں سے لڑتے ہیں گنہ گار ہیں اس ارشادحدیث سید عالم صلی اللہُ تعالیٰ علیہ و سلم کی نافرمانی و مخالفت کرتے ہیں.
حدیث شریف میں فرمایا جنبوا مساجدکم......... الخ
غنیہ میں فرمایا
"یجب أن تصان عن إدخال المجانين والصبیان لغیر الصلوۃ" واجب ہے کہ مساجد مجنون اور بچوں کو علاوہ نماز کی داخل کرنے سے بچائی جائیں "(فتاوی مصطفویہ،ص:٢٣٣)
جب نجاست کے خدشے کے پیش نظر ناسمجھ بچوں کا داخلہ مسجد میں ممنوع قرار دیا گیا تو شوروغل کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
مساجد کے احترام کا عالم یہ ہے کہ دنیاوی مباح گفتگو بھی اس میں کرنا جائز نہیں ایسی گفتگو نیکیاں کھا جاتی ہے.
فتاوی رضویہ میں ہے-:
"دنیا کی گفتگو کے لیے مسجد میں جاکر بیٹھنا حرام ہے-
اشباہ و نظائر میں فتح القدیر سے نقل فرمایا-"مسجد میں دنیا کے کلام نیکیوں کو ایسا کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو یہ مباح باتوں کا حکم ہے" (ج:٣،ص:٦٠٢)
فتاوی مصطفویہ میں ہے.
مسجد میں دنیا کی مباح باتیں کرنا ناجائز ہے...... دنیوی مباح باتیں مسجد میں کرنا حسنات کو ایسا کھاتا ہے جیسے چوپایہ گھاس........
غنیہ میں امام حلبی فرماتے ہیں-: " یجب ان تصان عن حدیث الدنیااھ مختصراً واجب ہے کہ مساجد کی دنیوی باتوں سے صیانت کی جاے.
اسی میں ہےـ
" والکلام المباح فیہ مکروہ و یاکل الحسنات کما تاکل البھیمۃ الحشیش" یعنی کلام مباح مسجد میں مکروہ ہے اور وہ حسنات کو اس طرح کھالیتاہے جیسے چوپایہ گھاس کو-" (ص:٢٣٢)
فتاوی امجدیہ میں ہے-:
مسجد کے اندر دنیا کی باتیں کرنا ناجائز ہے ایک روایت میں ہے کہ یہ نیکیوں کو اس طرح کھاتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو-" (ج:١،ص:٢٥٨)
بہار شریعت میں ہے-:
"مباح باتیں بھی مسجد میں کرنے کی اجازت نہیں نہ آواز بلند کرنا جائز،افسوس کہ اس زمانے میں مسجدوں کو لوگوں نے چوپال بنا رکھا ہے یہاں تک کہ بعضوں کو مسجدوں میں گالیاں بکتے دیکھا جاتا ہے والعیاذ باللہ تعالیٰ-" (ج:١،ص:٦٤٨،مکتبۃ المدینہ)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ مسجد میں مباح گفتگو کی بھی اجازت نہیں آواز بلند کرنا جائز نہیں تو پھر شور وغل کیسے جائز ہوسکتا ہے اور خاص بچوں کے مساجد میں لانے،لےجانے کی ممانعت کے متعلق حدیث شریف اور فقہی عبارت اوپر مذکور ہوئی. اس سے یہ بات ظاہر و باہر ہو گئی کہ مساجد میں شوروغل کرنا کسی کو کسی وقت کبھی بھی جائز نہیں بلکہ حرام و گناہ ہے.
اور اگر اس کے علاوہ کچھ اور مراد ہو تو اس کی وضاحت کر کے دوبارہ جواب حاصل کیا جاے.
اور بکر جو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منسوب روایت کا حوالہ دیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ پوری روایت کو مع حوالہ نقل کرے-
سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ فرماتے ہیں-:
اگر بے علم فتویٰ اتفاقاً صحیح بھی ہو جب بھی توبہ چاہیے نہ کہ محض غلط و باطل، بے علم فتویٰ دینا حرام ہے............ ایسے شخص پر ملائکہ سماوات و أرض لعنت کرتے ہیں حدیث میں ارشاد ہوا- "من افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السموات والأ رض" واللہ تعالیٰ أعلم.
     کتبہ
محمد معراج احمد قادری مصباحی بستوی