سوال نمبر 144
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ
زید نے آج سے پندرہ سال قبل کوکن بینک میں کچھ پیسے جمع کئے تھے
موجودہ وقت میں وہ پیسے کئی گنا بڑھ گئے ہیں
تو یہ بڑھے ہوئے پیسے جائز ہیں یا نہیں
از بدر الدین کاشی میرا
الجواب بعون الملك الوهاب؛
مسلمان اور غیر مسلم
(جوذمی،مستامن نہ ہو ) کے درمیان سود نہیں
"لاربابین المسلم والکافرالحربی"
نیز أن کامال معصوم بھی نہیں.
کیوں کہ سود کے تحقق کے لئے عصمت بدلین شرط ہے اور کافر حربی کامال معصوم نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "لاربوا بین المسلم والحربی "
(بدائع الصنائع میں ہے ") واما شرائط جريان الربا،فمنهاان يكون البدلان معصومين فان كان احدهما غير معصوم لا يتحقق الربا عندنا وعند ابى يوسف ليس بشرط ويتحقق الربا وعلى هذا الاصل يخرج ما اذا دخل مسلم دار الحرب تاجرا فباع حربيا درهما بدرهمين او غير ذلك من سائرالبيوع الفاسدة فى حكم الاسلام انه يجوز عند ابى حنيفة ومحمد)
(بدائع الصنائع ج 5 ص 192)
رد المحتار میں ہے :
قال فی الشرنبلالیة : ومن شرائط الربا عصمة البدلين ،فعصمة احدهما لا يمنع
(رد المحتار ج4 ص 196)
لہذا اگر بینک خالص کافروں کا یا یہاں (ہندوستان)کی حکومت کا ہو اس سے نفع لینا سود نہیں ،اور بینک سے قرض لے کر زائدرقم دینا ممنوع ہے لیکن اگر ظن غالب ہو کہ اس لین دین میں مسلمان کا فائدہ زیادہ ہوگا اور بینک کو نفع کم دینا پڑے گا تو یہ جائز ہے
(رد المحتار میں ہے : ان الاباحة بقيد نيل المسلم الزيادة وقد الزم الاصحاب فى الدرس ان مرادهم من حل الربا والقمار ما اذا حصلت الزيادة للمسلم نظرا الى العلة)
(رد المحتار ج4 ص 209)
والله تعالى اعلم بالصواب۔
کتبـــــہ؛
حضرت علامہ مفتی محمد منظور احمد یارعلوی
3 تبصرے
Sud Lena kaisa
جواب دیںحذف کریںhttps://masaileshariya.blogspot.com/2019/04/144.html
جواب دیںحذف کریںMyunusrazarahmanihaichla
جواب دیںحذف کریں