سوال نمبر 145
السلام علیکم ورحمتہ
سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کی لڑکی کی طلاق ہو گئی اور اس نے عدت نہیں کی اور ایک یا پانچ سال وہ اپنے گھر رہی پھر اس کی کسی لڑکے کے ساتھ شادی ہو گئی اب اس لڑکی کے جو بچے ہونگے وہ جائز ہونگے یا ناجائز کیا دوسرے نکاح کے لئے عدت شرط ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں جزاک اللہ خیر
المستفتی سجاد رضا نعیمی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب صورت مسئولہ میں اگر طلاق کے بعد اور نکاح ثانی سے پہلے تین حیض آچکا ہو تو نکاح ثانی جائز ودرست ہے اور اسکے جو بچے ہوں گے وہ بھی جائز ہی ہونگے کہ مطلقہ کی عدت تین حیض ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے وَ الۡمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوۡٓءٍ ؕ (سورہ بقرہ ۲۲۸)
ترجمہ اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک(کنزالایمان)
اور اگر طلاق کے بعد نکاح ثانی سے پہلے تین حیض نہ آیا ہو تو نکاح ثانی جائز نہیں اور جب نکاح جائز نہیں تو اولادیں کیونکر جائز ہونگی.یاد ریے یہ حکم مدخولہ کے لئے ہے.
اور اگر وہ لڑکی غیر مدخولہ تھی تو اس کے لیے کوئی عدت نہیں ہے جب چاہے نکاح کر سکتی ہے .
اور اگر وہ لڑکی حاملہ تھی تو اس کی عدت بچہ پیدہ ہونے تک ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ (طلاق ۴)
ترجمہ اور حمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں. واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
الفقیر تاج محمد حنفی قادری واحدی اترولوی
0 تبصرے