سوال نمبر 183
السلام عليكم ورحمة الله
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے تعلق کی حفاظ کرام کو تراویح کی اجرت لینا کیسا ہے ؟
اور اگر کسی حافظ نے یہ کہدیا ہو کی میرا مقصد صرف قرآن سنانا ہے تو اس کے لیۓ جو پیسے دیۓ جائیں وہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ جواب سے نوازیں حوالے کے ساتھ کرم ہوگا نوازش ہوگی ــ
سائل عبد الحفیظ
وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ
الجواب ھوالموفق للحق والصواب" ہمارے محققین اکابر اور دور ِحاضر کے مستند مفتیان کرام کا فتویٰ یہی ہے کہ تراویح کا معاوضہ" لا اجرۃ علی الطاعۃ" کے تحت لینا شرعاً جائز نہیں ہے اور رقم طے کر کے تراویح پڑھانا بھی جائز نہیں ــ
وہاں اگر لوجہ اللہ تراویح پڑھانے والا کوئی حافظ نہ ملے تو تراویح پڑھانے والے کو ماہ رمضان میں نائب امام بنایا جائے اس کے ذمے ایک یا دو نماز مقرر کردی جائے اور معقول تنخواہ طے کر دی جائے اگر پہلے سے وہی امام مقرر ہے اور تراویح بھی اسی نے پڑھانی ہے تو اس کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا جائے تو جائز ہوگا کیونکہ امام کی اجرت کو جائز قرار دیا گیا ہے امام کو چاہیے کہ اللہ کی رضا کی خاطر پڑھائے معاوضہ طے بھی نہ کرے لینے کی نیت بھی نہ رکھے تاہم مقتدیوں میں سے کوئی امام صاحب کو ہدیہ دینا چاہے تو امام کے لئے ہدیہ لینے کی گنجائش ہے ــ
واللہ تعالی اعلم
کتبہ
محمد منظور احمد یار علوی صاحب
0 تبصرے