سوال نمبر 1632
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد کے نل کا پانی بستی کے لوگ اپنے گھر لاکر استعمال کریں تو ان کے لیے کیا حکم ہے جواب عنایت فرمائیں قرآن وحدیث کی روشنی میں
المستفتی محمد تاج رضا
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
نل بنوانے والے نے اگر اجازت دے دی ہو تو لینے میں کوئی حرج نہیں،
اور اگر وہاں کے عرف عام میں یہ رواج ہو لوگ لے جاتے ہوں اور نل لگانے والے یا چندہ دینے والے کو معلوم ہو پھر بھی منع نہ کیا ہو تو ایسی صورت میں لے جا سکتے ہیں!
اور اگر بنوانے والے کی نیت یہ ہو کہ اسے وضو غسل وغیرہ نماز کے لئے طہارت کے کام ہی میں لیا جائے یا وہ مسجد کے مال سے بنوایا گیا ہو تو لوگوں کو اپنے گھر پانی لیجانا جائز نہیں !
جیسا کہ شہزادہ اعلی حضرت، امام الفقہاء، مفتی اعظم ہند حضرت علامہ ومولانا مفتی مصطفیٰ رضا قادری نوری بریلوی علیہ الرحمہ ایسا ہی ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ لے سکتے ہیں کہ نل لگانے والے کی کنواں بنانے والے کی طرح سب کو اجازت ہو اور اگر نل لگانے والے کی خاص مسجد ہی کے لئے نیت ہو کہ وضو و غسل وغیرہ نماز کے لئے طہارت ہی کے کام لیا جائے یا اس نل کے پانی کی قیمت مسجد کے مال سے ادا کی جاتی ہو تو گھروں کو لیجانا جائز نہیں۔
(فتاوی مصطفویہ صفحہ ٢٦٩)
فتاوی رضویہ میں ہے
المراد بہ الماء المسیل بمال الوقف کماء المدارس والمساجد والسقایات التی تملؤ اوقافھا فان ھذا الماء لا یملکہ احد ولا یجوز صرف الا الی جھۃ عینھا الواقف وھذا ھو حکم الوقف اھ
( فتاوی رضویہ قدیم جلد ۱ صفحہ ٤١٩، دارلعوام امجدیہ مکتبہ رضویہ آرام باغ روڈ کراچی، پاکستان)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ
محمد مدثر جاوید رضوی
مقام۔ دھانگڑھا، بہادر گنج
ضلع۔ کشن گنج بہار
٢٣/ ذو القعدۃ ١٤٤٢ ہجری
٥/ جولائی ٢٠٢١ عیسوی
دن:- پیر شریف
0 تبصرے