آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

ابلیس کے متعلق کان من الکافرین کی تشریح

سوال نمبر 257

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ ۔
 کیافرماتے ہیں علماۓ کرام ومفتیان عظام ۔ قرآن کریم میں فرمان الہی ھے ۔اباواستکبروکان من الکفرین۔اس وقت جب حکم خداوندی ھواسجدہ کاعزازیل نے انکارکیا۔اورسب فرشتے حکم الہی بجالاۓ۔بقیہ اورکوٸ کافرتوتھانہیں جبکہ قرآن میں جمع کاصیغہ کافرین ھے ۔ آج یہ سوال مجھ حقیرسے پوچھاگیالھذامفتیان کرام تفسیرکی روشنی میں جواب عنایت فرماٸیں ۔محمدرجب علی قادری فیضی اترولوی





الجواب ھوالموفق للحق والصواب
کان من الکافرین 
ہوگیاکفرکرنےوالوں میں سے

یعنی جوکفرکرنے والے علم الہی میں بالقوہ تھے ان میں سے یہ ایک ہوگیا
اب شاید کوئی استحالہ نہ رہا
مزید یہ کہ قرآن مجید ابلیس کے بارے میں فرماتا ہے: وَ كانَ مِنَ الْكافِرينَ۔قرآن مجید کا ترجمہ کرنے والے اس آیت کا دو طرح سے ترجمہ کرتے ہیں:
۱۔اور شیطان تو تھا ہی کافروں میں سے۔
۲۔اور شیطان کافر ہوگیا۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر شیطان کافر تھا تو اسے ملائکہ کی صفوں میں جگہ کیسے ملی؟ اور اگر پہلے کافر نہیں تھا تو کیا صرف آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے جرم میں وہ کافر بن گیا۔
قارئین کرام! اس شبہ کا صحیح جواب پانے کے لئے ہمیں ایک بار ان آیات کی طرف توجہ کرنا ہوگی جو فرشتوں کا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے بارے میں ہیں۔
چنانچہ جب اللہ نے آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی اور ان کا تعارف زمین پر اپنے خلیفہ کے طور پر کروایا:’’ وَ إِذْ قالَ رَبُّکَ لِلْمَلائِکَةِ إِنِّي جاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَليفَةً‘‘۔(سورہ البقرۃ:۳۰)۔ اور جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ تو فرشتوں نے سوال کیا کہ پروردگارا! اگر تیرا مقصد اپنی بندگی اور اطاعت ہے تو ہم ہیں۔ہمیں تیرا خلیفہ ہونا چاہیئے۔ لیکن قدرت خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا لہذا اسی بنیاد پر فرشتوں کا امتحان ہونا قرار پایا۔
پھر خداوند عالم نے فرشتوں سے فرمایا اگر تم سچ کہتے ہو (کہ تم خلافت کے زیادہ حقدار ہو) تو مجھے ان اشیاء اور موجودات کے نام بتاؤ جنہیں دیکھ رہے ہو اور ان کے اسرار اور کیفیات کو بیان کرو لیکن فرشتے جو اتنا علم نہ رکھتے تھے اس امتحان میں پیچھے رہ گئے لہذا جواب میں کہنے لگے خداوندا: تیری ذات پاک ہے۔ ہمیں اس کے سوا جو تو نے ہمیں تعلیم دیا ہے (سکھایا ہے) اور مزید کچھ علم نہیں ہے۔ بے شک تو بڑا علم والا اور بڑی حکمت والا ہے۔ (سورہ بقرہ:۳۲)۔
جب فرشتوں نے جناب آدم(ع) کے علم کا اعتراف کرلیا تو حکم ہوا’’ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْليسَ أَبى وَ اسْتَكْبَرَ وَ كانَ مِنَ الْكافِرينَ (سورہ البقره :34)آدم کو سجدہ کرو پس سب سجدہ میں گرگئے لیکن ابلیس نے انکار کیا اور تکبر برتا وہ تو تھا ہی کافروں میں سے۔
اب اس تمہید کے بعد ہم اس آیت کی طرف آتے ہیں، اس آیت میں لفظ ’’کان‘‘ آیا ہے لہذا جن لوگوں نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے’’ اور شیطان کافر ہوگیا‘‘ تو انہوں نے اسے’’کان‘‘ ’’صار‘‘ کے معنٰی میں لیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ اپنی عبادات و ریاضات کی وجہ سے ملائکہ کی صفوں تک پہونچنے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن جیسے ہی اس نے آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کردیا وہ کافر بن گیا چونکہ آدم علیہ السلام کو سجدہ درحقیت خدا کو سجدہ تھا چونکہ اسی نے تو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
لیکن جن لوگوں نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا کہ’’ اور وہ تو تھا ہی کافروں میں سے‘‘ تو انہوں نے یہ ترجمہ اس وجہ سے کیا ہے چونکہ ،شیطان کے اس انکار نے اس کی ماہیت اور حقیقت کو گویا اس طرح تبدیل کردیا اور اتنا پکا کافر بن گیا جیسے وہ کبھی ایمان لایا ہی نہیں تھا۔

ھذا ماظہر لی واللہ تعالی اعلم

کتبــه
منظوراحمد یارعـــلوی



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney