قربانی کے متعلق چند سوالات

سوال نمبر 319

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ

سوال۔ نمبر(١)
قربانی کے بڑے جانور میں چار یا پانچ شخص مل کر برابر قربانی دے سکتے ہیں یا نہیں ؟ 
(جبکہ یہ تعین نہیں ہو پارہاہے کہ کس کا کتنا حصہ ہے نیز یہ بھی کہ سبھی حضرات برابر پیسہ دیٸے ہیں اور گوشت کی تقسیم بھی برابر ہوگی )۔۔
۔ سوال نمبر۔(٢)
چند لوگ مل کر کسی بزرگ یا انبیاےکرام کے نام سے ایک یا دو حصہ قربانی دے سکتے ہیں یا نہیں؟
۔ سوال۔ نمبر (٣)
ہندہ جو کے شادی شدہ ہے اگر ان کے نام سے قربانی کی جاے تو کن کا نام لیا جاےگا والد کا یا شوہر کا؟
قرآن وحدیث واقوال فقہا ےکرام کی روشنی میں جواب مرحمت فرماٸیں 
سائل فقیر امتیازعالم رضوی مجاہدی متعلم دارالعلوم نصیرالدین اولیا ٕ کولکاتا بنگال



  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب 
مذکورہ بالا صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ 
1. ہاں کر سکتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ سب شرکاء کے حصے برابر ہوں بلکہ کم و بیش بھی ہو سکتے ہیں مگر یہ ضروری ہے کہ کسی کا ساتویں حصہ سے کم نہ ہو

اسی طرح کے سوال کے متعلق فقیہ اعظم حضور صدر الشریعہ محمد امجد علی علی اعظمی میں رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں گائے اونٹ میں سات شخص شریک ہو سکتے ہیں سات حصے کرنا ضروری نہیں کہ ساتھ سے کم ہو تو قربانی ہی نہ ہو اگر دو یا تین یا پانچ اچھے حصے کئے گئے جب بھی جائز ہے یعنی کوئی حصہ ساتویں سے کم نہ ہو اور زیادہ ہو تو حرج نہیں ہیں
 فتاویٰ امجدیہ ج 3 ص 313

ھدایہ کتاب الاضحیہ میں ہیں
تجوز عن خمسۃ او ستۃ ذکرہ محمد فی الاصل لانہ لما جاز عن سبعۃ فعمن دونھم اولی و لا تجوز عن ثمانیۃ اخذا بالقیاس فیما لانص فیہ و کذا اذا کان نصیب احدھم اقل من السبع لا یجوز عن الکل لانعام وصف القربۃ فی البعض و لو کانت البدنۃ بین اثنین نصفین تجوز فی الاصح لانہ لما جاز ثلثۃ الاسباع جاز نصف السبع تبعالہ الاخ 

ھدایۃ ج 4 ص 429/428

اور در مختار کتاب الاضحیہ میں ہے 

ولو لاحدھم اقل من سبع لم یجز عن احد و تجزی عما دون سبعۃ بالاولی 

در مختار ج 6 ص 315

اور رد المحتار میں ہے 
و اطلقہ فشمل ما اذا اتفقت الانصباء قدرا أو لا لکن بعد أن لا ینقص عن السبع ولو اشترک سبعۃ فی خمس بقرات او اکثر صح لان لکل منھم فی بقرۃ سبعھا لا ثمانیۃ فی سبع بقرات او اکثر لان کل بقرۃ علی ثمانیۃ اسھم فلکل منھم اقل من السبع 

در المحتار ج 6 ص 316

جبکہ یہ تعین نہیں ہو پا رہا ہے کہ کس کا کتنا حصہ ہے اس جملہ کو اس طرح سمجھے کہ اگر بڑے جانور میں سات لوگوں نے حصہ لیا ہے تو اس میں کوئی بات ہی نہیں  ہر فرد کے ذمہ ایک ایک حصہ آئے گا اگر پانچ لوگوں نے حصہ لیا ہے تو ہر ایک فرد کے ذمہ 1.14 حصہ آئے گا  اگر چار لوگوں نے لیا ہے تو ہر ایک فرد کے ذمہ 1.75 حصہ آئے گا

اور رہی یہ بات کی سبھی حضرات نے برابر پیسے دیئے ہیں تو ہر فرد کو برابر گوشت ملے گا مثال کے طور پر اگر سات افراد نے حصہ لیا ہے تو اس جانور میں جتنا گوشت  نکلے گا اسے ایک جگہ جمع کیا جائے اور وزن کریں مثال کے طور اگر 120 کلو گوشت نکلا تو اب 120 کلو گوشت کو سات میں تقسیم کرے جو ماحاصل نکلے گا وہی ہر فرد کے ذمے آئے گا 

لہذا اب ہم 120 کلو گوشت کو 7  میں تقسیم  کرتے ہیں تو 17 کلو 14 گرام  ماحاصل نکلا یعنی ہر ایک فرد کو  17 کلو  14  گرام گوشت ملے گا اسی پر 3/4/5  کو قیاس کر لیں 

مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ بڑے جانور میں مثلا گائے بیل بھینس  اونٹ میں سات شخص شریک ہو سکتے ہیں اور اگر شرکاء سات سے کم ہو تو بھی جائز ہے

2.  چند لوگ مل کر کسی بزرگ یا انبیاےکرام کے نام سے ایک یا دو حصہ قربانی دے سکتے ہیں مثلا چھ آدمی مل کر بڑا جانور خریدیں اور ساتواں حصہ مل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام قربانی کرے یا کسی بزرگ کے نام قربانی کرے تو یہ جائز ہے اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں لانہ لم یثبت فی الشرع حرمۃ او کراھۃ کذلک 

ایسے ہی سوال کے متعلق  فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی   رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں جس طرح یہ جائز ہے کہ چند مسلمان شریک ہوکر ایک بکرا خریدیں اور اس کی قربانی سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نام یا کسی دوسرے بزرگ کے نام کرے کوئی قباحت نہیں اسی طرح کچھ مسلمان مشترکہ طور پر بڑا جانور خرید کر ساتواں حصہ کسی بزرگ یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام قربانی کرے جائز ہے اور جائز ہونے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں 

فتاویٰ فیض الرسول ج 2 ص 446

وہ امتی بڑا خوش نصیب ہے جو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی قربانی کرے جسے اللہ تعالی نے مال و دولت اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نوازا ہے اسے کرنی چاہیے ۔  ک۔سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی قربانی کی ہے ہے 

مسائل شریعت ج 2 ص دفعہ 505


3. ہندہ جو کہ شادی شدہ ہے اگر ان کے نام سے قربانی کی جاے تو قربانی ہو جائے گی صرف عورت کا نام لینا ہی کافی ہے 
ایسے ہی سوال کے متعلق  فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں  جس عورت کی طرف سے قربانی ہو خدائے علیم و خبیر خوب جانتا ہے کہ وہ فلاں کی لڑکی فلاں کی بیوی ہے اس لئے صرف عورت کا نام لینا کافی ہے فلاں بن فلاں یا فلاں زوجہ فلاں کہنا ضروری نہیں اور اگر کہہ دے تو کوئی حرج بھی نہیں 

 فتاویٰ فیض الرسول ج 2 ص 448


واللہ اعلم بالصواب

 کتبہ
 جلال الدین احمد امجدی رضوی






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney