آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

کیا داڑھی رکھنا واجب ہے؟

سوال نمبر 508

السلام علیکم ورحمت اللہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کہتا ہے کہ داڑھی رکھنا واجب نہیں 
کیا زید کا یہ کہنا درست ہے اگر نہیں تو زید پر عند الشرع کیا حکم ہے 
سائل :- وسیم پٹنہ بہار





وعلیکم السلام ورحمت اللہ

 الجواب بعون الملک الوہاب
 صورت مسؤلہ میں شرعاً ایک مشت تک داڑھی بڑھانا واجب ہے چونکہ اس کا وجوب سنت سے ہے اس لئے عام طور پر لوگ اسے سنت کہہ دیتے ہیں

 حدیث شریف میں ہے

 خالفواالمشرکین اوفروااللحیٰ واحفوا الشوارب وفی روایۃ انھکواالشوارب واعفوااللحیٰ ۔

 یعنی ۔ سرکار اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو داڑھیوں کو بڑھاٶ  اور مونچھوں کو کتراٶ

 اور ایک روایت میں ہے کہ مونچھوں کو خوب کم کرو اور داڑھیوں کو بڑھاٶ ۔  (بخاری ۔ مسلم )

 در مختار میں ہے یحرم علی الرجل قطع لحیتہ ۔ یعنی مرد کو داڑھی منڈانا حرام ہے 

 اور بہار شریعت جلد شانزدہم (١٦) صفحہ نمبر ۔ ١٩٧ ۔ میں ہے داڑھی بڑھانا سنن انبیائے سابقین سے ہے منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے ۔

 اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری رحمہ اللہ تعالی علیہ تحریر فرما تے ہیں 

 حلق کردن لحیہ حرام ست و رَوِش افرنج و ہنود و جوالقیان ست کہ ایشاں را قلندریہ گویند و گزاشتن آں بقدر قبضہ واجب ست و آں کہ آنرا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک در دین ست ۔ یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت ست چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند

 یعنی داڑھی منڈانا حرام ہے اور انگریزوں ۔ ہندوں اور قلندریوں کا طریقہ ہے ۔ اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے اور جن فقہاء نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت قرار دیا تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا تو یہاں سنت سے مراد دین کا چالو راستہ ہے اور یا تو اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ بہت سے علماء کرام نے نماز عید کو مسنون فرمایا
 (حالانکہ نماز عید واجب ہے ۔ 
اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ نمبر ٢١٢ 
 اور در مختار مع شامی جلد دوم صفحہ نمبر ١١٦
 رد المحتار جلد دوم صفحہ نمبر ١١
 بحرالرائق جلد دوم صفحہ نمبر ٢٨٠
فتح القدیر جلد دوم صفحہ نمبر ٢٧۰
 اور طحطاوی صفحہ نمبر ٤١۱
 میں ہے ۔ واللفظ للطحاوی الاخذ من اللحیت و ھو دون ذلک ( ای القدر المسنون و ھو القبضہ )

 کما یفعلہ بعض المغاربت و مخنثت الرجال لم یجہ احد اخذ کلھا فعل یھود الھند و مجوس الاعاجم ۔

 یعنی داڑھی جبکہ ایک مشت سے کم ہو تو اس کاٹنا جس طرح بعض مغربی اور زنانے زنخے کرتے ہیں کسی کے نزدیک حلال نہیں ۔ اور کل داڑھی کا صفایا کرنا یہ کام تو ہندوستان کے یہودیوں اور ایران کے مجوسیوں کا ہے

 ایــــضـــا
 ارشاد رسالت مآب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہے
 اوفروااللحی ؛داڑھیاں کثیرو وافر رکھو
بخاری و مسلم شریف
 اعفوااللحی ؛؛ داڑھیاں بڑھاؤ
مسلم ؛ ترمذی و ابن ماجہ ؛ طحاوی

 ارخوااللحی ؛ داڑھیاں بڑھنے دو ؛ 
 مسند احمد ؛ مسلم ؛ شرح معنی الاثار

 اوفوااللحی ؛ داڑھیاں پوری کرو ؛
 طبرانی کبیر

 لہذا مذکورہ احادیث قبضہ کے وجوب پر دال ہیں ؛

ماخوذ از لمعہ الضحی مشمولہ فتاوی رضویہ  جلد دہم صفحہ  127

مذکورہ بالا احادیث کتب فقہ وفتاوی واقوال علما سے یہ ثابت ہو گیا کہ داڑھی رکھنا واجب ہے 
صورت مستفسرہ میں زید خاطی ہے زید کا انکار کرنا ایک واجب کا انکار کرنا ہے جس کے سبب زید سخت گنہگار و فاسق ہے زید پر واجب ہے کہ وہ توبہ صادقہ کرے اور اپنے اس قبیح جملے سے رجوع کرے اگر ایسا نہ کرے تو اس کا سماجی بائکاٹ کیا جائے تاوقتیکہ وہ توبہ نہ کر لے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے 
 الشیطن فلا تقعد بعد الذکرٰی مع القوم الظلمین ھ۱ ( القرآن پارہ ۷ رکوع ۱۴ ) واللہ سبحانہ تعالی اعلم

کتبہ؛؛
 العبدالاثیم خاکسار
 ابوالصدف محمد صادق رضا 
 مقام ؛سنگھیاٹھاٹھول(پورنیه)
 خادم؛ شاہی جامع مسجد 
 پٹـنه   بہــار   الھنــد



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney