سوال نمبر 602
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بعد سلام علماء کی بارگاہ میں یہ سوال عرض ہے کہ اگر نماز میں پہلی رکعت میں 15 پندرہ واں پارہ سورہ بنی اسرائیل کی چھ آیت تلاوت کی پھر دوسری رکعت 30 تیسواں پارہ کی سورہ والضحی کی تلاوت کی جس میں 11گیارہ آیت ہے تو اب پہلی رکعت میں کم آیت ہے اور دوسری رکعت میں زیادہ تو اس سے نماز درست ہے یا نہیں.
سائل محمد انتخاب عالم مقام کھمار پوکھر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ہدایةالحق والصواب
صورت مسئولہ میں نماز ہو گئی کیونکہ سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدائی چھ آیات اور سورۂ والضحی کی گیارہ آیات گنتی میں کم و بیشی کے باوجود کلمات و حروف کے اعتبار سے فرق نہیں رکھتے، اس لئے کچھ بھی کراہت نہیں،
جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے
اطالتِ ثانیہ بر اولےٰ در فرائض مکروہ است بالاتفاق ودر نوافل علی الاصح وعکس آں را در نوافل کراہتے نیست ودر صبح نیز جائز است بالاتفاق والاطلاق یعنی ہرچہ تطویل کند باک نباشد وبقدر ثلث خود مستحب است وبعضے تا نصف گویند وزیادہ برآں باوصف جواز خلاف اولیٰ است ودر غیر فجر از فرائض اختلاف است نزد امام محمد ہمہ جا اطالت اولیٰ باید وشیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بہ تسوید رفتہ اند وفتویٰ مختلف است وباید کہ ارجح واوجہ قول شیخین باشد ــ فان كلام الامام امام اكلام
فتاویٰ رضویہ جدید جلد ۶ صفحہ ۲۷۱
اور بہار شریعت میں ہے کہ
دوسری رکعت کی قرأت پہلی سے طویل کرنا مکروہ (تنزیہی )ہے جبکہ بیّن فرق معلوم ہوتا ہو اور اس کی مقدار یہ کہ اگر دونوں سورتوں کی آیتیں برابر ہوں تو تین آیت کی زیادتی سے کراہت ہے اور چھوٹی بڑی ہوں تو آیتوں کی تعداد کا اعتبار نہیں بلکہ حروف و کلمات کا اعتبار ہے اگر کلمات و حروف میں بہت تفاوت ہو کراہت ہے اگرچہ آیتیں گنتی میں برابر ہوں مثلاً پہلی میں الم نشرح پڑھی اور دوسری میں لم یکن تو کراہت ہے اگر چہ دونوں آٹھ آٹھ آیتیں ہیں
الدر المختار ٬ وردالمحتار٬ کتاب الصلوة باب صفة الصلوة٬ فصل فی القراءة و مطلب: السکون سنة تکون سنة عین۔۔۔ الخ٬
بحوالہ بہار شریعت سوفٹوئر حصہ سوم صفحہ ۵۰۵ قرآن مجید پڑھنے کا بیان
والله اعلم باالصواب
کتبــــہ
محــــمد معصــوم رضا نوری
منگلور کرناٹک انڈیا
۲۹ ربیع النور شریف ۱۴۴۱ھ
۲۷ نومبر ۲۰۱۹ء بروز بدھ
+918052167976
0 تبصرے