سوال نمبر 634
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع اس مسئلہ میں کہ پرندوں اور جانوروں مثلاً کبوتر , طوطا , خرگوش وغیرہ کو پنجرے میں قید رکھنا کیسا ہے ؟
جواب جلد از جلد عنایت فرما کر عنداللّٰہ ماجور و ممنون ہوں
السائل پپو خان نگواں شریف جہانا باد بہار
وعلیکم السلام و رحمة الله وبركاته
الجواب اللھم ہدایة الحق والصواب
صورت مسئولہ میں
پرندوں کو پالنا جائز ہے اس طور پر کہ ان کی خوراک اور ضروریات وغیرہ کا خیال رکھا جائے اور شریعت مطہرہ میں اس کی ممانعت نہیں کی گئی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو پوچھتے تھے:
يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه.
یعنی اے ابو عمیر! نغیر (ایک پرندہ) کا کیا کیا؟ وہ بچہ اس پرندہ سے کھیلتا تھا
بخاري، الصحيح، ۵ : ۲۲۹۱، رقم: ۵۸۵۰، دار ابن کثير اليمامة بيروت
مسلم، الصحيح، ۳ : ۱۶۹۲، رقم: ۲۱۵۰، دار احياء التراث العربي بيروت
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت انس کے گھر میں ان کے بھائی نے ایک پرندہ پال رکھا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے، مگر آپ نے اسے رکھنے سے منع نہیں کیا۔ تو معلوم ہوا کہ پرندوں کو گھر میں پالنے کی اجازت ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں
إن في الحديث دلالة على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه
اس حدیث سے پرندے کو پنجرے وغیرہ میں بند کرنے کے جواز پر دلیل ملتی ہے۔ پرندے کو رکھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کے کھانے وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرے۔
عسقلانى، فتح البارى، ۱۰ : ۵۸۴، دار المعرفة بيروت
پرندوں کو پالنا جائز ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ضروری شرط یہ ہے کہ ان جانوروں کےحقوق کا خیال رکھا جائے اور ان کی حق تلفی نہ کی جائے، کیونکہ ان کو خوراک مہیا نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
اس کے متعلق سرکار اعلٰی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ
دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الارض فوجبت لها النار بذلک رواه البخاري عن ابن عمر رضی الله تعالی عنهما ، وجملة "فوجبت "من رواية الإمام أحمد عن
جابر بن عبد الله رضي الله عنهما۔
یعنی
ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اسے باندھ رکھا تھا نہ خود کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور کو ملتا کھاتی اس وجہ سے اس عورت کے لئے جہنم واجب ہو گئی (اس کو امام بخاری نے سیدنا حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنهما سے روایت کیا اور جملہ "فوجبت" (یعنی اس عورت کے لئے جہنم واجب ہو گئی ، حضرت امام احمد بن حنبل نے بروایت سیدنا حضرت جابر رضی الله تعالی عنهما ذکر فرمایا_
صحیح بخاری کتاب بدأالخلق باب خیر مال المسلم غنم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۶۷
مسند احمد بن حنبل ازمسند جابر رضی الله عنہ دار الفکر بیروت ۳ /۳۳۵
(فتاوی رضویہ جدید ج ۱۶ ص ۳۱۱ رضا فاؤنڈیشن لاہور )
فلہٰذا پرندے پالنے کے متعلق چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
ان کے کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
ان کی حق تلفی نہ کی جائے۔
اولین کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ان کو مانوس کیا جائے تاکہ ان کو قید کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اگر بالفرض قید کرنا بھی پڑے تو ان کی رہائش کا بہتر سے بہتر بندوبست کیا جائے، تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو۔
ان پر کسی قسم کی سختی نہ کی جائے۔بیمار ہونے کی صورت میں مکمل علاج معالجہ کیا جائے۔
ھذا ما ظھر لی وھو سبحانہ تعالی واتم واحکم والله ورسولہ اعلم باالصواب
کتبـــــــہ
محــــمد معصــوم رضا نوری
منگلور کرناٹک انڈیا
۲۱ ربیع الآخر ۱۴۴۱ھ بروز جمعرات
19/12/2019
+918052167976
0 تبصرے