آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

کیا دو وطن کے درمیان سفر کرنے سے مسافر کہلاۓ گا

سوال نمبر 672

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
زید اپنے پریوار والوں کے ساتھ سیتا پور رہتا تھا اور بریلی میں رہ کر پڑھائی کرتا تھا اور اب اس وقت زید اپنے پریوار والوں کے ساتھ دہلی میں رہتا ہے اور بریلی میں رہ کر پڑھائی کرتا ہے یعنی اس کا گھر سیتاپور میں بھی ہے اور دہلی میں بھی تو جب زید بریلی سے سیتا پور جاۓ گا یا دہلی جاۓ گا تو وہ دونوں جگہیں مقیم کہلاۓ گا یا صرف ایک جگہ یا اس پر مسافر کے کیا احکام جاری ہونگے تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی

سائل محمد ہاشم غلام ازہری




وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ 

الجواب
بعون الملک العزیز الغفار الوھاب
 جب زید بریلی سے سیتا پور اور دہلی جاۓ گا تو مقیم ہوجاۓ گا اس لۓ کہ سیتا پور اور دہلی دونوں وطن اصلی کےحکم میں ہے ۔سوال میں  یہی ظاھر ہے اور وطن اصلی  میں زید مقیم ہوگا ۔ وہاں قصر نہیں کرے گا۔ کیونکہ دونوں وطن اصلی ہیں ۔اب وہ سیتا پور یا دہلی آۓ گا تو مقیم ہی رہے گا ۔اگر پہلی جگہ بچے موجود ہیں تو وطن اصلی ہے ورنہ پہلی جگہ وطن اصلی نہیں ۔

جیسا کہ حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان نے ارشاد فرمایا،، ایک جگہ آدمی کا وطن اصلی ہے اب اس نے دوسری جگہ وطن اصلی بنایا اگر پہلی جگہ بال بچے موجود ہوں تو دونوں اصلی ہیں ورنہ پہلا اصلی نہ رہا خواہ ان دونوں جگہوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہو ۔
بحوالہ درمختار 
بہارشریعت جلداول حصہ چہارم صفحہ  ٨٣
لیکن اگر اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر دوسری جگہ چلا گیا اور پہلی جگہ مکان و اسباب وغیرہ باقی ہیں تو وطن اصلی ہے۔
بحوالہ فتاوی عالمگیری 

جیسا کہ حضور شمس العلماء علامہ مفتی شمس الدین احمد رضوی جعفری علیہ الرحمةوالرضوان نےارشادفرمایا،، (  وطن اصلی  )     وہ جگہ جہاں اس کی پیدائش ہے یا اس کے گھر کے لوگ وہاں رہتے ہیں یا وہاں سکونت کرلی ہے اور یہ ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جاۓ گا ۔ 

( وطن اقامت  )    وہ جگہ ہے جہاں مسافر نے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کاارادہ کیا ۔ (بحوالہ فتاوی عالمگیری و بہارشریعت جلداول حصہ چہارم صفحہ  ٨٣ )

مسافر جب اپنے وطن اصلی میں  پہنچ گیا تو سفرختم ہوگیا اگرچہ اقامت کی نیت نہ کی ہو ۔ 

حضور شیخ الشیوخ علامہ الشیخ علاءالدین محمد بن علی حصکفی رضی اللہ تعالی عنہ نےارشادفرمایا،، الوطن الاصلی موطن ولادته او تاھله اوتؤطنه  ۔

اور اسی عبارت کی شرح میں  حضورسیدالفقہاء علامہ سید محمد امین الشہیر بابن عابدین شامی علیہ الرحمة والرضوان نےارشادفرمایا،، 
قوله اوتاھله ای تزوجه وقوله اوتؤطنه ای عزم علی القرار فیه وعدم الارتحال وان لم یتاھل ۔

ردالمحتار جلداول صفحہ ٥٣٢ 

بحوالہ عالمگیری جلداول مطبوعہ مصرصفحہ ١٣٣

قانون شریعت حصہ اول صفحہ ١٣٦
ھکذا فی بہارشریعت جلداول حصہ چہارم صفحہ٨٤ 
ھکذا فتاویٰ فیض الرسول جلداول صفحہ ٣٩٥

لھذا زید کیلۓ سیتاپور اور دہلی جو وطن اصلی کے حکم میں ہے وہاں وہ مقیم ہوگیا اگر سیتا پور سے سب دہلی آگۓ ہیں اور سیتا پور میں اب کچھ نہیں ہے تو سیتا پور وطن اصلی نہ رہا ۔اگر مکان و اسباب باقی ہے تو وطن اصلی ہے ۔اگر دہلی میں خود کی زمین مکان نہیں تو وہ وطن اصلی نہیں ۔جو وطن اصلی ہے وہاں قصر نہیں ۔اور جو وطن اقامت ہے وہاں وقت متعینہ کا حکم ہوگا 

وھوسبحانہ تعالی اعلم بالصواب 
کتــبہ
العبد محمد عتیق اللہ صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ 
دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام 
بتھریاکلاں ڈومریا گنج سدھارتھنگر یوپی 
٣٠   جمادی الاولی  ١٤٤١ ھ
 ٢٦    جنوری         ٢٠٢٠ء
صبغت اللہ: 



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney