ناپاکی حالت میں کلام اللہ کی تلاوت کرنا کیسا

سوال نمبر 1005

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جنب کو کلام اللہ شریف کی پوری آیت پڑھنی ناجائز ہے یا آیت سے کم بھی، مثلاً کسی کام کیلئے حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل یا کسی تکلیف پر
 انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون کہہ سکتا ہے کہ یہ پوری آیتیں نہیں آیتوں کے ٹکڑے ہیں یا اس قدر کی بھی اجازت نہیں۔ بینوا توجروا
سائل بدر عالم پریہار سیتامڑھی بہار




وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب:-- اولا یہ معلوم رہے کہ قرآن عظیم کی وہ آیات جو ذکر وثنا ومناجات ودُعا ہوں اگرچہ پوری آیت ہو جیسے آیۃ الکرسی متعدد آیات کاملہ جیسے سورہ حشر شریف کی اخیر تین آیتیں

ھو اللّٰہ الذی لاالٰہ الا ھو عالم الغیب والشھادۃ۱؎

سے آخر سورۃ تک ،بلکہ پوری سورت جیسے الحمد شریف بہ نیت ذکر ودعا بے نیت تلاوت پڑھنا جنب وحائض ونُفسا سب کو جائز ہے اسی لئے کھانے یا سبق کی ابتدا میں
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کہہ سکتے ہیں اگرچہ یہ ایک آیت مستقلہ ہے کہ اس سے مقصود تبرک واستفتاح ہوتا ہے، نہ تلاوت، تو
حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل اور انّا اللّٰہ وانّا الیہ راجعون کہ کسی مہم یا مصیبت پر بہ نیت ذکر ودعا، نہ بہ نیت تلاوت قرآن پڑھے جاتے ہیں، اگرچہ پوری آیت بھی ہوتی تو مضائقہ نہ تھا جس طرح کسی چیز کے گُمنے پر
عسٰی ربنا ان یبدلنا خیرا منھا انّا الی ربنا راغبون کہنا ۔
 مسئلہ جو آیت پوری سورت خالص دعا وثنا ہو جنب و حائض بے نیت قرآن صرف دعا و ثنا کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں جیسے الحمد و آیۃ الکرسی۔

 (۱؎ القرآن الکریم ۵۹ /۲۲)  (۲؎ القرآن الکریم  ۶۸ /۳۲)

بحر میں ذکر مسائل ممانعت ہے:

ھذا کلہ اذا قرأ علی قصد انہ قراٰن اما اذا قراہ علی قصد الثناء اوافتتاح امر لایمنع فی اصح الرویات وفی التسمیۃ اتفاق انہ لایمنع اذا کان علی قصد الثناء اوافتتاح امرکذا فی الخلاصۃ وفی العیون لابی اللیث ولو انہ قراء الفاتحۃ علی سبیل الدعاء اوشیئا من الایات التی فیہا معنی الدعاء ولم یرد بہ القراء ۃ فلا باس بہ  واختارہ الحلوانی وذکر غایۃ البیان انہ المختار
یہ سب اس وقت ہے جب بقصدِ قرآن پڑھے۔لیکن جب ثنایاکسی کام کے شروع کرنے کے ارادے سے پڑھے تواصح روایات میں ممانعت نہیں۔ اورتسمیہ کے بارے میں تواتفاق ہے کہ جب اسے ثنا  یا کسی کام کے شروع کرنے کے ارادے سے پڑھے توممانعت نہیں۔ایسا ہی خلاصہ میں ہے۔ امام ابو اللیث کی عیون المسائل میں ہے:اگر سورہ فاتحہ بطور دُعا پڑھی یا کوئی ایسی آیت پڑھی جو دُعا کے معنی پر مشتمل ہے اوراس سے تلاوتِ قرآن کاقصد نہیں رکھتاتوکوئی حرج نہیں اھ۔ اسی کو امام حلوانی نے اختیارکیا اورغایۃ البیان میں مذکور ہے کہ یہی مختار ہے۔(ت)

 (۳؎ البحر الرائق کتاب الطہارۃ    باب الحیض ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۹۹)

ہاں آیۃ الکرسی یا سورہ فاتحہ اور ان کے مثل ایسی قراء ت کہ سننے والا جسے قرآن سمجھے اُن عوام کے سامنے جن کو اس کا جنب ہونا معلوم ہو بآواز بہ نیت ثنا ودعا بھی پڑھنا مناسب نہیں کہ کہیں وہ بحال جنابت تلاوت جائز نہ سمجھ لیں یا اس کا عدمِ جواز جانتے ہوں تو اس پر گناہ کی تہمت نہ رکھیں۔

(حوالہ فتاوی رضویہ جلد اول صفحہ نمبر 1080 دعوت اسلامی)

اور شریعت میں ہے
اگر قرآن کی آیت دُعا کی نیت سے یا تبرک کے لیے جیسے  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یا ادائے شکر  کو یا چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  یا خبرِ پریشان پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا یا بہ نیتِ ثنا پوری سورۂ فاتحہ یا آیۃ الکرسی یا سورۂ حشر کی پچھلی تین آیتیں   ھُوَاللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَسے آخر سورۃتک پڑھیں   اور ان سب صورتوں   میں   قرآن کی نیّت نہ ہو توکچھ حَرَج نہیں ۔ یوہیں   تینوں   قل بلا لفظ قل بہ نیتِ ثنا پڑھ سکتا ہے اور لفظِ قُل کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اگرچہ بہ نیّت ثنا ہی ہو کہ اس صورت میں   ان کا قرآن ہونا متعین ہے نیّت کو کچھ دخل نہیں ۔ درود شریف اور دعاؤں کے پڑھنے میں   انھیں حَرَج نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ وُضو یا کُلی کر کے پڑھیں۔
(بہار شریعت جلد اول حصہ دوم صفحہ نمبر 326 دعوت اسلامی)

    واللہ تعالیٰ اعلم
           از قلم
 فقیر محمد اشفاق عطاری






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney