سوال نمبر 1041
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
جمعہ میں جو اذان ثانی ہوتی ہے وہ مسجد کے اندر دینی چاہیے یا خارج مسجد جواب مع حوالہ ارسال فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل۔عبدالعزیز قادری ممبئ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب:
جمعہ کی اذان ثانی خارج مسجد منبر کے سامنے ہونی چاہئے ۔ داخل مسجد اذان دینا مکروہ و ممنوع ہے
فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے: جمعہ کی اذان ثانی کا صحیح محل خارج مسجد ہے کہ یہی سنت ہے اور منبر کے پاس مسجد کے اندر پڑھنا بدعت ہے۔ اسلئے کہ حضور سید عالم ﷺ کے ظاہری زمانہ میں اور خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دور میں ایک بار بھی خطبہ کے اذان کا مسجد کے اندر ہونا ہرگز ثابت نہیں بلکہ ان کے مبارک دور میں ہمیشہ خطیب کے سامنے مسجد کے باہر دروازہ پر یہ اذان ہوا کرتی تھی
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے عن السائب بن یزید قال کان یوذن بین یدی رسول اللہ ﷺ اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وابی بکر و عمر
یعنی حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضورﷺ کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی ۔ اور ایسا ہی حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں بھی رائج تھا۔ (ابو داؤد شریف جلد اول صفحہ ۱۵۵)
اور حضرت علامہ سلیمان جمل رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ "اذا نودی للصلوٰۃ" کی تفسیر میں لکھتےہیں "اذا جلس علی المنبر اذن علی باب المسجد" یعنی جب حضور ﷺ جمعہ کے روز منبر پر تشریف رکھتے تو مسجد کے دروازہ پر اذان پڑھی جاتی ۔ (تفسیر جمل جلد چہارم صفحہ ۲۴۳)
قرآن مجید کی تفسیر اور حدیث شریف سے واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ خطبہ کی اذان مسجد کے باہر پڑھنا رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی سنت ہے۔ اسی لئے فقہائے کرام مسجد کے اندر اذان پڑھنے کو منع فرماتے ہیں جیسا کہ فتاویٰ قاضی خان جلد اول مصری صفحہ ۱۵۵ اور بحر الرائق جلد اول صفحہ ۲۶۸ میں ہے "لا یوذن فی المسجد" یعنی مسجد میں اذان پڑھنا منع ہے اور فتح القدیر جلد اول صفحہ ۲۱۵ میں ہے "قالوا لایؤذن فی المسجد" یعنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ مسجد کے اندر اذان نہ پڑھی جائے ۔ اور طحطاوی علی مراقی الفلاح صفحہ ۲۱۷ میں ہے "یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القہستانی عن النظم اھ" (فتاویٰ فقیہ ملت جلد اول صفحہ ۸۶)
یعنی حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضورﷺ کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی ۔ اور ایسا ہی حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں بھی رائج تھا۔ (ابو داؤد شریف جلد اول صفحہ ۱۵۵)
اور حضرت علامہ سلیمان جمل رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ "اذا نودی للصلوٰۃ" کی تفسیر میں لکھتےہیں "اذا جلس علی المنبر اذن علی باب المسجد" یعنی جب حضور ﷺ جمعہ کے روز منبر پر تشریف رکھتے تو مسجد کے دروازہ پر اذان پڑھی جاتی ۔ (تفسیر جمل جلد چہارم صفحہ ۲۴۳)
قرآن مجید کی تفسیر اور حدیث شریف سے واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ خطبہ کی اذان مسجد کے باہر پڑھنا رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی سنت ہے۔ اسی لئے فقہائے کرام مسجد کے اندر اذان پڑھنے کو منع فرماتے ہیں جیسا کہ فتاویٰ قاضی خان جلد اول مصری صفحہ ۱۵۵ اور بحر الرائق جلد اول صفحہ ۲۶۸ میں ہے "لا یوذن فی المسجد" یعنی مسجد میں اذان پڑھنا منع ہے اور فتح القدیر جلد اول صفحہ ۲۱۵ میں ہے "قالوا لایؤذن فی المسجد" یعنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ مسجد کے اندر اذان نہ پڑھی جائے ۔ اور طحطاوی علی مراقی الفلاح صفحہ ۲۱۷ میں ہے "یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القہستانی عن النظم اھ" (فتاویٰ فقیہ ملت جلد اول صفحہ ۸۶)
اور فتاویٰ شرعیہ میں ہے: مسجد کے اندر اذان دینے کو فقہائے کرام نے مکروہ لکھا ہے فتاویٰ خانیہ میں ہے: "ینبغی ان یؤذن علی المئذنۃ او خارج المسجد ولا یؤذن فی المسجد" اذان گاہ یا خارج مسجد اذان کہی جائے اندرون مسجد اذان کہنا جائز نہیں ۔
اور اسی میں ہے: خطبہ کی اذان مسجد سے باہر یا دروازہ مسجد پر دینا چاہئے مسجد کےاندر منبر کے قریب اذان دینا مکروہ ہے (فتاویٰ شرعیہ جلداول صفحہ ۳۰۲
اور فتاویٰ فیض الرسول میں ہے: خطبہ کی اذان داخل مسجد کہنا بدعت ہے (فتاویٰ فیض الرسول جلداول صفحہ ۱۸۱)
اورفتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے: جمعہ کی اذان ثانی خارج مسجد منبر کے سامنے ہونی چاہئے ۔ داخل مسجد اذان دینا مکروہ و ممنوع ہے حضور سید المرسلینﷺ کے زمانہ اقدس میں اور زمانہ خلفائے راشدین میں جمعہ کی یہ اذان مسجد کے باہر دروازے ہی پر ہوا کرتی تھی۔ (فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد اول صفحہ ۱۶۱)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ: غلام محمد صدیقی فیضی
متعلم (درجہ تحقیق سال دوم) دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف سدھارتھ نگر یوپی الہند
۲۰/ محرم الحرام ۱۴۴۲ ہجری بروز بدھ
0 تبصرے