سوال نمبر 1040
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں مسائل شرعیہ گروپ کے علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کی ہمارے گاؤں میں ایک رواج ہے جب لوگوں کا انتقال ہو جاتا ہے تو جنگل کی لکڑی کاٹ کر قبر میں تختہ دیتے ہیں اور اس لکڑی کا نا اجرت دیتے ہیں اور ناہی جنگلات والوں سے اجازت لیتے ہیں تو ایسا کرنا کیسا اور لگانے والوں پر شریعت کا کیا حکم لگے گا اور اس تختے سے میت کو کوئی تکلیف تو نہیں کیوں کہ وہ چوری کا ہی تو ہے مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
سائل مراد علی بھالوکونی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب اس طرح جنگل سے لکڑی کاٹ کر لانا اور اس لکڑی سے تختہ دینا قانوناً جرم ہے کیونکہ اس میں حکومت کے قانون کو توڑنا اور اپنے آپ کو ذلت رسوائی میں و عزت کو خطرے میں ڈالنا ہے حالانکہ عزت و آبرو کی حفاطت بہت ضروری ہے، جنگلات کی نگہبانی کے لئے حکومت کی طرف سے ایک آدمی مقرر ہوتا ہے اسی لئے تاکہ کوئی ان کو کاٹ نہ سکے اور اگر کسی نے کاٹ لیا محکمئہ جنگلات کو معلوم ہوگیا تو مقدمہ و مستوجب سزا ہوگا،، حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بلا ٹکٹ سفر کے متعلق پوچھا گیا تو اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہاں کے کفار اگرچہ حربی ہیں مگر بلا ٹکٹ ریل میں سفر کرنا اپنے کو اہانت کے لئے پیش کرنا ہے اپنی عزت کو خطرہ میں ڈالنا ہے کہ خلاف قانون ہے مستوجب سزا ہوگا اس حرکت سے احتراض لازم ہے جو موجب ذلت و رسوائی ہو، فتاوی مصطفویہ حصہ سوم صفحہ ۱۴۶
لہٰذا گاؤں والوں کو چاہئے کہ ایسی حرکت سے باز رہیں ورنہ ان پر قانونی کاروائی ہو سکتی ہے، اگر ان کی ملکیت میں درخت نہیں ہیں جسے کاٹ کر تختہ دیا جائے تو میت کے مال سے یا میت کے وارثین تختہ خرید کر لائیں یا پھر لحد بغلی قبر تیار کریں اس میں تختہ کے بجائے کچی اینٹ لگا دیں، پھر تختہ کی ضرورت نہیں پڑے گی
ہاں اگر اس جنگل سے لکڑی لانے کی عام اجازت ہو تو حرج نہیں یوں ہی وہ کسی کے ملک میں ہو تو اس کی اجازت سے بھی استعمال کرسکتے ہیں.
واللہ تعالی ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ
حقیر عجمی محمد علی قادری واحدی
0 تبصرے