جو امام فجر کی نماز چھوڑنے کا عادی ہو تو اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟ ‏


    سوال نمبر 1822

 السلام علیکم ورحمت الله وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام مفتیان عظام اس مسلہ کے بارے میں کہ امام صاحب کی فجر کی نماز اکثر چھوٹ جاتی ہے تو نماز پڑھانے میں کراہت ہے کی نہیں 

المستفتی :- شفاعت اللہ واحدی انڈیا یوپی


وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ

    الجواب بعون الملک الوہاب 

اگر امام کی، کسی شدید مجبوری کے تحت کبھی کبھار فجر کی نماز چھوٹ جاتی ہے اور بعد قضاء ادا کرتا ہے تو اس کے پیچھے بلا کراہت نماز جائز ہے ! مگر اکثر یعنی عادتاً چاہے  سستی کی وجہ سے یا لاپرواہی سے چھوڑتا ہے تو اس کی اقتداء میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے، 

جیساکہ فتاوی فقیہ ملت میں ہے۔

،،فجر کی نماز قضا کرنے میں اگر امام کی لاپرواہی کا دخل ہے تو اعلانیہ توبہ و استغفار کرے اور پابندی نماز کی فکر کرے ! عشاء بعد فوراً سو جائے تاکہ صبح جلد اٹھ سکے اور اگر امام استطاعت رکھتا ہو تو بلند آواز کی الارم گھڑی خریدے، اگر وہ نہیں خرید سکتا تو مقتدی چندہ کرکے خریدیں ! اگر وہ لوگ نہ خریدیں تو مسجد سے اس کا انتظام کریں ،یا نمازیوں میں جو سب سے پہلے مسجد میں آتا ہو وہ امام کو جگا دیا کرے یا مؤذن اگر تنخواہ دار ہو تو امام کا جگانا اس کے ذمہ لازم کر دیں ! فجر کی نمازوں کی قضا کے سبب اگر وہ توبہ نہ کرے یا مذکورہ صورتوں میں سے کسی صورت کے ساتھ بھی آئندہ وہ نماز کی پابندی نہ کرے تو اس کو رخصت کر دیں،کہ ایسے شخص کو امام رکھنا درست نہیں اس لئے کہ ایسے امام کی پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے ! یعنی اس کی اقتدا میں پڑھی گی نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا ! 

درمختار مع الشامی جلد اول صفحہ 337 میں ہے ،

 کل صلاۃ ادیت مع کراھۃ التحریم تجب اعاد تھا اھ "فتاوی فقیہ ملت جلداول صفحہ 122"

واللہ اعلم 

کتبہ:- فقیر محمد امتیاز قمر رضوی امجدی عفی عنہ گریڈیہ جھارکھنڈ انڈیا۔

30/ستمبر /بروز جمعرات







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney