سوال نمبر 1134
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فتوی کے لغوی اور شرعی معنی کیا ہے نیز اس کی اہمیت کیا اور فتوی دینے کا حق کس کو ہے
المستفتی مہتاب عالم گورکھپوری
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
فتوی لغوی اعتبار سے اسم مصدر ہے اس کی جمع فتاوی ہے مادہ ف،ت،ی۔ہے۔ اور فتویٰ کا لغوی معنی ہے شرعی حکم،مفتی کا فیصلہ،قاضی کا شرعی فیصلہ جو کسی بات کے جواز یا عدم جواز میں دیا جائے۔فتوی دینا: شرعی حکم لگانا، قانون مذہب کے مطابق فیصلہ دینا۔
حوالہ فیروز اللغات اردو ص ۹۲۴ ناشر فیروز سنز لاہور۔
اور شرعی معنی یہ ہے کہ پیش آمدہ واقعات کے بارے میں دریافت کرنے والے کو دلیل شرعی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بارے میں خبر دینے کو فتوی کہتے ہیں۔
حوالہ فتاوی غوثیہ ص ۲۱.
فتاوی ایک اہم ذمہ داری ہے اور اس کی وجہ سے یہ ہے کہ مفتی شارح علیہ السلام کے نائب حیثیت سے دینی معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر فتوی نوشی کے اصول و قواعد باقاعدہ فن کی شکل دی گئی اور اس "فن کو رسم المفتی سے" تعمیر کیا گیا۔
فتوی مسلم معاشرہ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اس کی اساس قرآن کریم کی درج ذیل آیت ہے۔
فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳)
اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں.
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۴۴)
ترجمہ کنزالایمان:- اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے اورتاکہ وہ غوروفکر کریں.
یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں فتوی نویسی کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے چونکہ ایک مسلمان کو دینی اور دنیاوی معاملات میں جدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے مسلم معاشرہ میں اس کی موجودگی بہت ضروری ہو جاتی ہے۔ نبی کریم کے دور سے لے کر اب تک علماء نے اس اہم ذمداری کو نبھایا اور اس کے اصول و شرائط اور آداب پر بھی سیر گفتگو بھی حاصل کی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فتویٰ اپنی زندگی میں صادر فرمائے۔ وہ جامع ترین احکام پر مشتمل تھے۔ اور مسائل کے استنباط کے سلسلے میں سر چشمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حوالہ فتاوی غوثیہ ج ۱ ص ۲۲.
فتوی دینا حقیقۃً مجتہد کا کام ہے کہ سائل کے سوال کا جواب کتاب و سنت و اجماع و قیاس سے وہی دے سکتا ہے۔ افتاء کا دوسرا مرتبہ نقل ہے یعنی صاحب مذہب سے جو بات ثابت ہے سائل کے جواب میں اُسے بیان کر دینا اس کا کام ہے اور یہ حقیقۃً فتوی دینا نہ ہوا بلکہ مستفتی
(فتوی طلب کرنے والے) کے لیے مفتی (مجتہد) کا قول نقل کر دینا ہوا کہ وہ اس پر عمل کرے۔ مفتی ناقل کے لیے یہ امر ضروری ہے کہ قول مجتہد کو مشہور و متد اول(رائج) و معتبر کتابوں سے اخذ کرے غیر مشہور کتب سے نقل نہ کرے۔
جو شخص فتوٰی دینے کا اہل ہو اُس کے لیے فتوی دینے میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ فتوی دینا لوگوں کو دین کی بات بتانا ہے اور یہ خود ایک ضروری چیز ہے کیونکہ کتمانِ علم (علم کا چھپانا) حرام ہے۔
حوالہ بہار شریعت ج ۲ ح ۱۲ ص ۹۱۱ ۔۹۱۴ ناشر مکتبہ المدینہ کراچی دعوت اسلامی۔
حاکم اسلام پر یہ لازم ہے کہ اس کا تَجَسُّس کرے کون فتویٰ دینے کے قابل ہے اور کون نہیں ہے جو نا اہل ہو اُسے اس کام سے روک دے کہ ایسوں کے فتوے سے طرح طرح کی خرابیاں واقع ہوتی ہیں جن کا اس زمانہ میں پوری طور پر مشاہدہ ہو رہا ہے۔ حوالہ ایضا۔
اور صراط الجنان میں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو علم کے بغیر فتویٰ دے اس پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ (ابن عساکر، محمد بن اسحاق بن ابراہیم۔۔۔ الخ، ۵۲/۲۰)
غلط مسائل بیان کرنے والوں ، بغیر پڑھے عالم و مفتی و محدث و مفسر کہلانے والوں اور قرآن و حدیث کی غلط تشریحات و توضیحات کرنے والوں کی آج کل کمی نہیں اور یہ سب مذکورہ آیت و احادیث کی وعید میں داخل ہیں۔ اسی وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہیں تو محض کوئی آرٹیکل یا کالم لکھنے والے لیکن دین کو بھی اپنے قلم سے تختہ مشق بناتے ہیں۔
وہ آیت یہ ہے
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِۙ۔
بےشک وہ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ لوگوں کے لیے ہم اسے کتاب میں واضح فرماچکے۔سورہ بقرہ آیت نمبر 159۔
واللہ تعالیٰ اعلم
از قلم
فقیر محمد اشفاق عطاری
۲۵ صفر المظفر ۱۴۴۲ ہجری
۱۳ اکتوبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز منگل۔
0 تبصرے