چوری کے جانور کی قربانی کرنا کیسا ہے؟

 سوال نمبر 1355


السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید نے کچھ عرصہ پہلے خالد سے ایک بکری خریدی تھی پالنے کی غرض سے، تقریباً چھ ماہ بعد اس نے ایک بچے کو جنم دیا، تو زید نے چاہا کہ آئندہ سال اس کی قربانی کروں گا، لیکن اس کو ابھی معلوم ہوا کہ وہ بکری چوری کی ہے، جب زید نے خالد سے معاملے کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ خالد نے جس شخص سے بکری کو خریدا تھا وہ چور ہے، یعنی اس نے بکری چوری کرکے خالد کے ہاتھ فروخت کی اور پھر اس سے زید نے خرید لی، دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید بکری کے اس بچے کی قربانی کر سکتا ہے یا نہیں؟ اور نہیں تو پھر بکری اور اس کے بچے کا کیا کیا جائے؟ حوالاجات سے مزین فرما کر جواب عنایت فرمائیں عین نوازش و کرم ہوگا۔

سائل:  آصف رضا ہندی

ساکن:  بھگت پور ضلع مرادآباد یوپی






وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب: سراج بزم اولیاء کاملین امام عاشقاں حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ: چوری کا مال دانستہ خریدنا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مظنون ہو جب بھی حرام ہے مثلا کوئی جاہل شخص کو اس کے مورثین بھی جاہل تھے کوئی علمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی ملک بتائے اس کے خریدنے کی اجازت نہیں اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کا استعمال حرام ہے بلکہ مالک کو دیا جائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو، اور ان کا بھی پتہ نہ چل سکے تو فقراء کو-

(فتاویٰ رضویہ شریف جدید ،کتاب البیوع،جلد ١٧،صفحہ نمبر ١٦٦)


 لہذا زید کو جب معلوم ہوگیا کہ یہ جانور چوری کا تھا تو اب اس کی قربانی نہیں کرسکتا اب زید اس جانور کو اصل مالک کے حوالے کردے اگر مالک نہیں ہے تو اس کے وارثین کو دے دے اگر یہ بھی نہ پتہ چلے تو اس جانور کو فقراء کے حوالے کردے اور چور سے تاوان وصول کرے۔


واللہ تعالی ورسولہ اعلم بالصواب 


کتبہ حقیر عجمی محمد علی قادری واحدی

 ۱۲ جمادی الآخر 

۱۴۴۲ ھجری







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney