سوال نمبر 1741
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسٔلہ کے بارے میں کہ ٹی وی فروخت کرنا کیسا ہے اور بیچنے والے پر کیا حکم ہے جواب عنایت فرمائیں؟
سائل : ذیشان احمد ممبئ
وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاته
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
ٹی وی کی تجارت جائز نہیں
فتاوی مرکز تربیت میں ہے:
آتش بازی حرام ہے کہ یہ گناہ پر اعانت ہے جو حرام ہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ولا تعاولوا علی الاثم والعدوان
(پ، ٦، س مائدہ، آیت ٢)
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:افیون وغیرہ جس کا کھانا ناجائز ہے ایسوں کے ہاتھ فروخت کرنا جو کھاتے ہیں ناجائز ہے کہ اس میں گناہ پر اعانت ہے جو حرام ہے "ھ (ج١٦، ص:١٠٦)
(مأخوذ فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ٢٣٧/٢٣٨)
فتاوی فقیہ ملت میں ہے گھروں میں ٹی وی رکھنا اور اسے دیکھنا دکھانا بھی سخت ناجائز وحرام ہے فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی قد سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں کہ گھر میں ٹی وی رکھنا حرام۔ (فتاوی فقیہ ملت ج، ٢، ص: ٣٨٢)
فتاوی رضویہ میں ہے کہ: " نفس اجرت کہ کسی فعل حرام کے مقابل نہ ہو حرام نہیں یہی معنی اس قول حنفیہ کے کہ " يطيب الاجر ان كان السبب حراما كما فى الاشباه وغيره " اھ
( فتاوی رضویہ ج ٨ ص ١٦٦ )
ٹی وی کی تجارت کا مسئلہ علماء کے درمیان اختلافی ہے اور وہ اختلاف یوں کہ جو لوگ ضرورتا ٹی وی کے استعمال کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک ٹی وی کی تجارت بھی جائز ہوگی اور جو لوگ ٹی وی کے استعمال کو ناجائز کہتے ہیں ان کے نزدیک ٹی وی کی تجارت بھی ناجائز ہوگی مگر مذہب امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ اختلافی مسائل میں جانب منع کا احوط ہونا ہے اور یہی راجح اور مفتی بہ قول ہے
لہٰـــذا : مذہب امام اعظم کا اختلافی مسائل میں مفتی بہ مذہب یہی ہے کہ ٹی وی کی تجارت ناجائز رہے گی
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کـــــــــــتبہ: محمد مدثر جاوید رضوی
مقام۔ دھانگڑھا، بہادر گنج
ضلع۔ کشن گنج بہار
الجواب صحیح والمجیب نجیح
خلیفۂ حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا الشاہ مفتی سید شمس الحق برکاتی صاحب قبلہ دامت برکاتہم القدسیہ قاضی شرع اسٹیٹ گووا الھند
0 تبصرے