ماں، بیوی، دو بیٹوں میں جائیداد کیسے تقسیم ہو؟


سوال نمبر 2042

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ باپ، ماں، بیوی اور دو بیٹوں میں وراثت کیسے تقسیم ہوگی، ان میں سے ہر ایک کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟

المستفتی :- عبداللہ 


وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

باسمہ تعالی وتقدس الجواب : 

برتقدیرِ صدق سائل وانحصار ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدمہ علی الارث(یعنی کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کے لئے وصیت کی ہو تو تہائی ۱/۳ مال سے اسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم کا ترکہ اڑتالیس (٤٨) حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے ماں،باپ ہرایک کو چھٹا چھٹا یعنی آٹھ،آٹھ(٨،٨) حصے ملینگےکیونکہ میت کی اولاد کی موجودگی میں والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:


وَلِاَبَوَيْهِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَهُ وَلَدٌ" (النسآء:٤/ ١١)

ترجمہ کنزالایمان : اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگرمیت کے اولاد ہو۔


 اور بیوہ کو آٹھواں حصہ یعنی چھ(٦) حصےملینگے ۔

 کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیوہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے۔

چنانچہ قرآن کریم میں ہے:"فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ"

ترجمہ :پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں (النسآء:٤/ ١٢)

اوربقیہ چھبیس حصے بطور عصبہ مرحوم کے دونوں بیٹوں میں تقسیم ہونگے اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بیٹے کو تیرہ،تیرہ ( ١٣،١٣)حصے ملیں گے۔


واللہ تعالی اعلم 

کتبہ:ابوکوثر،محمدارمان علی، حنفی، قادری ،جامعی، واحدی ،حبیبی ،ضیاٸی۔

تخصص فی الفقہ ، نوری دارالافتا،بھیونڈی۔

٧/شعبان المعظم ١٤٤٣ ھ ۔







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney