سوال نمبر 1099
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا حکم ہے شرع کا کہ کوئی مسلم لڑکی اپنی عزت بچانے کے لئے خود کشی کر سکتی ہے
المستفتی غلام علی یارعلوی اترولہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
کوئی بھی لڑکی اپنی عزت بچانے کے لئے خود کشی نہیں کر سکتی ہے "کیوں کہ جان بچانے کی فرضیت کے مقابلے عزت بچانا فرض نہیں" حدیث پاک میں ہے "اذا التزام الشرین فاختر اھونہما" اور یہاں مذکورہ صورت میں اہم جان بچانا ہے اور اھون بے عزت ہونا ہے، اس لئے بحکمِ حدیث بے عزتی کو ترجیح دیا جائے گا اور اہم الفرائض یعنی جان بچانا بھی ہو جائے گا،۔اگر کوئی اس کی عزت جبراً لوٹ رہا ہے تو مکمل کوشش کرے اپنے آپ کو بچانے کے لئے بچ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی بات نہیں اس کا گناہ اس لڑکی پر نہیں ہوگا بلکہ جو عزت لوٹ رہا ہے اس پر ہوگا اور اگر اپنی عزت بچانے کے لئے اپنی جان دے گی تو ضرور گنہگار ہوگی جیسا کہ بہار شریعت میں ہے کہ
اگر اس کو مجبور کیا گیا کہ تو اپنا عضو کاٹ ڈال ورنہ میں تجھے قتل کر ڈالوں گا تو اس کو ایسا کرنے کی اجازت ہے اور اگر اس پر مجبور کیا گیا کہ تو خود کشی کر لے ورنہ میں تجھے مار ڈالوں گا اس کو خود کشی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
حوالہ بہار شریعت جلد سوم حصہ ۱۵ صفحہ نمبر ۱۹۳ ناشر مکتبہ المدینہ باب المدینہ کراچی دعوت اسلامی۔
جب یہاں اس کو خود کشی کرنے کے لئے حکم دے رہا ہے کہ کرو ورنہ مار دونگا پھر بھی اجازت نہیں۔تو وہاں کیوں کر اجازت ہو سکتی ہے اور اپنی عزت دینے کی صورت میں گنہگار نہیں ہوگی۔ اور اگر وہ خود کشی ہی کر لیں گی تو اس کے بعد توبہ بھی نہیں کر پائے گی جبکہ عزت جانے کے بعد توبہ بھی کر سکتی ہے اور اللہ پاک توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جیسا کہ خود ارشاد فرماتا ہے۔: ’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘(النساء :۶۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول(بھی) ان کی مغفرت کی دعافرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
از قلم فقیر محمد اشفاق عطاری
۱۴ صفر المظفر ۱۴۴۲ ہجری
۰۲ اکتوبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز جمعہ
0 تبصرے