سجدہ سہو اشارہ سے کیا تو کیا حکم ہے؟

 (سوال نمبر 2332)

الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اِس مسئلہ میں کہ امام پر سجدۂ سہو واجب ہوا۔ امام صاحب نے چاروں رکعت کے سجدے سنت کے مطابق مکمل سات ہڈیوں پر کیے لیکن سجدۂ سہو والے دونوں سجدے بیٹھ کر ہاتھ زمین پر رکھ کر اشارے سے کیے تو اب ایسی صورت میں امام اور مقتدیوں کی نماز کا کیا حکم ہے؟

(سائل:عبد اللہ صاحب،کراچی)

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:صورتِ مسئولہ میں امام اور مقتدیوں پر نماز کا اعادہ واجب ہے۔ اور یہ اِس لئے کہ بھولے سے ترکِ واجب کے سبب امام پر سجدۂ سہو کرنا واجب تھا۔چنانچہ علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی١٠٠٤ھ لکھتے ہیں:یجب بترک واجب سہوا۔ملخصاً(تنویر الابصار،ص٩٨۔٩٩)

یعنی،بھولے سے ترکِ واجب کے سبب سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے۔   اور علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی١٠٦٩ھ لکھتے ہیں:یجب سجدتان بتشھد و تسلیم لترک واجب سھواً وان تکرر۔(نور الایضاح،ص٢٤٣)

یعنی،بھولے سے ترکِ واجب کی بنا پر تشہد اور سلام کے ساتھ دو سجدے واجب ہوتے ہیں اگرچہ متعدد واجب ترک ہوئے ہوں۔

   اور امام کے سہو سے مقتدیوں پر بھی سجدۂ سہو واجب ہوا۔چنانچہ علامہ اکمل الدین محمد بن محمد بابرتی حنفی متوفی٧٨٦ھ لکھتے ہیں:اذا سھا الامام وجب السجود للمؤتم لوجوبہ علی الامام۔(العنایة شرح الھدایة،٥٠٦/١)

یعنی،جب امام سے مُوجبِ سہو عمل سرزد ہوجائے تو امام پر سجدہ سہو واجب ہونے کی وجہ سے مقتدی پر بھی سجدۂ سہو واجب ہوگا۔

   اور امام کے اشارے سے سجدۂ سہو کرنے کے سبب سجدۂ سہو ادا ہی نہ ہوا کیونکہ امام سجدۂ حقیقی پر قادر تھا یوں واجب ترک ہوا جس کے سبب امام اور سب مقتدیوں کی نماز مکروہ تحریمی ہوئی اور ایسی نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی١٠٨٨ھ لکھتے ہیں:کل صلاة ادیت مع کراھة التحریم تجب اعادتھا۔(الدر المختار،ص٦٤)

یعنی،ہر وہ نماز جو کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی ہو اس کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:۔

محمد اُسامہ قادری

پاکستان، کراچی

بدھ،١٩/جمادی الاولیٰ،١٤٤٤ھ۔١٤/دسمبر،٢٠٢٢ء



مسائل شرعیہ کے جملہ فتاوی کے لئے یہاں کلک کریں

فتاوی مسائل شرعیہ کے لئے یہاں کلک کریں 







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney