آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

درخت کا عشر کیسے نکالیں

 سوال نمبر 2669


السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ 

علمائے کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے کہ

عام طور سے کھیتوں میں جو پیڑ لگا دیے جاتے ہیں اور جب ان کو کاٹا جائے ان کو بیچا جائے تو ان کا عشر زکوۃ کس طرح ادا کی جائے گی 

علماء کرام رہنمائی فرمائیں اور جواب مرحمت فرمائیں عین نوازش کرم ہوگا 

سائل 

محمد عرفان القادری حنفی لکیھم پور کھیری


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعون الملک الوہاب 

زمین کی ہر اس پیدا وار پر عشر واجب ہوتا ہے جس سے نفع حاصل کرنا مقصود ہو تو زمین میں جو درخت اس لیے لگائے جاتے ہیں کہ ان کو بیچ کر پیسہ کمائیں گے تو ان پر عشر واجب ہے

جیساکہ بدائع الصنائع میں ہے"

ومنها: أن يكون الخارج من الأرض مما يقصد بزراعته نماء الأرض وتستغل الأرض به عادةً، فلا عشر في الحطب والحشيش والقصب الفارسي؛ لأن هذه الأشياء لاتستنمى بها الأرض ولاتستغل بها عادة؛ لأن الأرض لاتنمو بها، بل تفسد، فلم تكن نماء الأرض، حتى قالوا في الأرض: إذا اتخذها مقصبةً وفي شجره الخلاف، التي تقطع في كل ثلاث سنين، أو أربع سنين أنه يجب فيها العشر؛ لأن ذلك غلة وافرة"۔ (الجزء الثانی صفحہ 505 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ ردالمحتار اور عالمگیری کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں" عشری زمین سے ایسی چیز پیدا ہوئی جس کی زراعت سے مقصود زمین سے منافع حاصل کرنا ہے تو اُس پیداوار کی زکاۃ فرض ہے اور اس زکاۃ کا نام عشر ہے یعنی دسواں  حصہ کہ اکثر صورتوں  میں  دسواں  حصہ فرض ہے، اگرچہ بعض صورتوں  میں  نصف عشر یعنی بیسواں  حصہ لیا جائے گا۔" (بہار شریعت حصہ پنجم)

اور جو چیز زمین کے تابع ہے جیسے خودرو درخت وغیرہ جو بغیر قصد کے حاصل ہوئے ان میں عشر نہیں ہے البتہ اگر ان کو بیچ کر پیسہ وغیرہ کمایا گیا اور وجوب زکوٰۃ کے شرائط پائے گیے تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوگا زکوٰۃ کا وجوب زمینی پیدا وار کی وجہ سے نہیں بلکہ شرائط زکوٰۃ مکمل ہونیکی وجہ سے ہے

فتاویٰ عالمگیری میں ہے

"ولاعشر فیما ھو تابع للارض کالنخل والاشجار وکل ما یخرج من الشجر کالصمغ والقطران لانہ لایقصد بہ الاستغلال کذا فی البحر الرائق (جلد اول صفحہ 204 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

اور  جن چیزوں کی پیداوار سے نفع حاصل کرنا مقصود نہ ہو ان پر عشر نہیں اس کے بارے میں درمختار اور ردالمحتار کے حوالے سے حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں" جو چیزیں  ایسی ہوں  کہ اُن کی پیداوار سے زمین کے منافع حاصل کرنا مقصود نہ ہو اُن میں  عشر نہیں ، جیسے ایندھن، گھاس، نرکل، سنیٹھا، جھاؤ، کھجور کے پتّے، خطمی، کپاس، بیگن کا درخت، خربزہ، تربز، کھیرا، ککڑی کے بیج۔ یوہیں  ہر قسم کی ترکاریوں  کے بیج کہ اُن کی کھیتی سے ترکاریاں  مقصود ہوتی ہیں ، بیج مقصود نہیں  ہوتے۔ یوہیں  جو بیج دوا ہیں  مثلاً کندر، میتھی، کلونجی اوراگر نرکل، گھاس، بید، جھاؤ وغیرہ سے زمین کے منافع حاصل کرنا مقصود ہو اور زمین ان کے لیے خالی چھوڑ دی تو اُن میں  بھی عشر واجب ہے۔ (بہار شریعت حصہ پنجم)

مذکورہ تمام دلائل سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فروخت کی غرض سے لگائے درختوں پر عشر واجب ہے اور اس کا طریقہ یہی ہے کل مال کے رقم کا دسواں حصہ یا درخت کی لکڑی کا دسواں حصہ ادا کرے

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ بالصواب 

محمد ابراہیم خان امجدی قادری رضوی




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney