سوال نمبر 2685
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: پڑوسی اگر دیوبندی ہے تو کیا پڑوسی ہوگا اور اگر پڑوسی ہوگا تو کیا پڑوسی کے حقوق ہونگے؟؟ حوالہ جات کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔
سائل۔ ریحان رضا گجرات
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب : بدمذہب کافر پڑوسی کی دنیاوی مدد کرسکتے ہیں شدید ضرورت کے موقع پر پڑوسی ہونے کی وجہ سے بشرطیکہ کوئی دینی نقصان نہ ہولیکن ان سے تعلقات نہیں رکھ سکتے چونکہ دیوبندی اور وہابی بمطابق فتاویٰ حسام الحرمین مرتد وکافر ہیں اور علماء حرمین شریفین نے ان کے متعلق بالاتفاق فرمایاکہ (من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر) اسی وجہ سے ان کی مدد کرنا یا ان کے ساتھ کسی طرح کا نیک سلوک کرنا جائز نہیں ہے لہذا اگر کوئی پڑوسی پکا وہابی ہو تو بہت ہی شدید ضرورت پر ہی دنیاوی تعاون کرسکتے ہیں لیکن میل جول کی اجازت ہرگز نہیں۔
کفار سے میل جول کی ممانعت پر رب تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان:’’اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔‘‘(القرآن الکریم، پارہ 7، سورۃ الانعام، آیت68)
مذکورہ بالا آیت کے تحت علامہ ملّا احمد جیون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفی:1130ھ/1718ء)لکھتے ہیں:”وان القوم الظالمین یعم المبتدع والفاسق والکافر ، والقعود مع کلھم ممتنع‘‘ ترجمہ: آیت میں موجودلفظ﴿الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ بدعتی ،فاسق اور کافر سب کو شامل ہے اور ان تمام کے ساتھ بیٹھنا منع ہے۔(تفسراتِ احمدیہ ، سورہ انعام ، تحت الایۃ 68، صفحہ 388 ، مطبوعہ کوئٹہ )
عام بدمذہب ، مرتدین کے مقابلے میں ہلکا حکم رکھتے ہیں اور عام بدمذہبوں سے بچنے کی نہایت تاکید ہے، تو مرتد کا معاملہ تو اور شدید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدمذہبوں کی صحبت سے دور رہنے کا حکم فرمایا، چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:”فإياكم وإياهم، لا يضلونكم، ولا يفتنونكم “ترجمہ: تم ان سے دور رہو اور وہ تم سے دور رہیں ،کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں۔ (صحیح المسلم، باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء ،جلد ۱،صفحه ۳۳، مطبوعه لاھور)"
"امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ (المتوفی ١٣٤٠ھ ١٩٢١ء) مرتدین کے احکام بیان فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:”مرتد سے مسلمانوں کو سلام ، کلام حرام، میل جول حرام، نشست و برخاست حرام، بیمار پڑے، تو اس کی عیادت کو جانا حرام۔“(فتاوی رضویہ ،جلد ١٤، صفحہ ٢٩٩، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)"
اسی میں دوسری جگہ پر ارشاد فرماتے ہیں کہ:”موالات مطلقاً ہر کافر ہر مشرک سے حرام ہے …اور معاملتِ مجردہ سوائے مرتدین ہر کافر سے جائزہے ،جبکہ اس میں نہ کوئی اعانتِ کفریا معصیت ہو،نہ اِضْرارِ اسلام وشریعت(ہو)۔“(فتاوی رضویہ ،جلد ١٤، صفحہ ٤٣٧، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)"
واللّٰه تعالیٰ عزوجل ورسولہ اعلم بالصواب ﷺ
کتبہ: عبد الوکیل صدیقی نقشبندی فلودی راجستھان الھند
خادم: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند


0 تبصرے