سوال نمبر 106
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی کا سخت سماجی بائکاٹ کیا گیا ہو کسی جرم کی وجہ سے اگر وہ اس جرم سے توبہ نہ کرے اور اسی بائکاٹ کے ایام میں انتقال کرجائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں
سائل
فیصل ربانی گونڈوی
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مسؤلہ میں جب کوئی مسلمان مرجائے خواہ وہ متقی و پرہیزگار ہو یا شرابی و بدکار؛ اسلامی طریقہ پر اس کی تجہیز و تکفین کرنا اور جنازہ کی نماز پڑھنا ہر مسلمان پر فرض کفایہ ہے؛ جس کو موت کی اطلاع ہوجائے یعنی اگر مطلع ہونے والوں میں سے کسی ایک نے بھی اسلامی طریقہ پر تجہیز و تکفین نہ کی اور جنازہ کی نماز نہ پڑھی تو سبھی گنہگار ہونگے ــ
فتاوی فیض الرسول جلد1 صفحہ 440
نیز سرکار اعلحضرت عظیم البرکت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الحمۃ والرضوان اپنی تصنیف فتاوی افریقہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ مسلمان چاہے کتنا بھی بڑا گنہگار ہو اگر وہ مومن ہے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائیگی ــ
اور حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ہر مسلمان کی نماز جنازہ پڑھی جائے اگر چہ وہ کیساہی گنہ گار و مرتکب کبائر ہو مگر چند قسم کے لوگ ہیں کہ انکی نماز جنازہ نہیں ـــ
(1)باغی جو امام برحق پر ناحق خروج کرے اور اسی بغاوت میں مارا جائے ــ
(2) ڈاکو جو کہ ڈاکہ میں مارا گیا نہ انکو غسل دیا جائے نہ انکی نماز جنازہ پڑھی جائے مگرجب کہ بادشاہ اسلام نے ان پر قابو پایا اور قتل کیا تو نماز و غسل ہے یا وہ نہ پکڑے گئے نہ مارے گئے بلکہ ویسے ہی مرے تو بھی غسل و نماز جنازہ ہے ـ
(3)جو لوگ ناحق پاسداری سے لڑیں بلکہ جو انکا تماشہ دیکھ رہے تھے اور پتھر آکر لگا اور مرگئے تو انکی بھی نماز جنازہ نہیں ـــ
(4)جسنے کئی شخص کو گلا گھونٹ کر مار ڈالے اسکی بھی نماز جنازہ نہیں ــ
(5)شہر میں رات کو ہتھیار لےکر لوٹ مارکریں وہ بھی ڈاکو ہیں اس حالت میں مرجائیں تو انکی بھی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے ــ
(6)جسنےاپنی ماں باپ کو مار ڈالا اسکی بھی نماز جنازہ نہیں ــ
(7 )کسی کا مال چھین رہا تھا اس حالت میں مارا گیا اسکی بھی نماز جنازہ نہیں ــ
عالمگیری درمختار وغیرہما
بہارشریعت جلد 1 حصہ 4 صفحہ 827
کتبہ ؛
ابوالصدف محمد صادق رضا
0 تبصرے