سوال نمبر 110
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال کیافرماتے ہیں علمائے دین درجہ ذیل مسلے میں ، زید کا انتقال ہوا ، اپنے پیچھے چھوڑا تین بھائی، ایک بہن،ماں باپ۔ فوت ہو چکے ہیں۔
بہن کی شادی ہوگئی ہے۔ نیز باپ کی وراثت کا جو حصہ تھا وہ تقسیم ہو چکا ہے۔ اور زید کی بیوہ بھی اپنے میکے چلی گئی۔ ان صورتوں میں اگر زید کی کچھ رقم اسکے دوستوں کے پاس ہو تو کس کو دی جاے اور اور مذکورہ لوگوں میں رقم دینے کی صورت کیا ھوگی۔ جبکہ رقم ظاہر کرنے پر سخت انتشار کا خدشہ ھے۔ تو کیا غیر وارث اسکی رقم کو ایصال ثواب کی نیت سے کسی مذہبی کام میں خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں۔ ازروے شریعت مفصل و مدلل جواب عطا فرمائیں۔ نوازش ہوگی۔فقط والسلام۔
سائل۔۔ تاج محمد قادری ممبرا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب غیر وارث اس رقم کو ایصال ثواب کی نیت سے کسی بھی مذہبی کام میں خرچ نہیں کر سکتا بلکہ مذکورہ رقم زید کی اور دیگر جائداد کی طرح اس کے ورثہ کے مابین تقسیم کی جاے گی وہ اس طرح کہ مکمل رقم کے چار حصے کئے جائیں گے ان میں سے ایک حصہ بیوی کو ملے گا.
قال اللہُ تعالیٰ :"ولھن الربع مماترکتم إن لم یکن لکم ولد" (پ:٤،رکوع:١٣،آیت نمبر:١٢)
ترجمہ-"اور تمہارے ترکہ میں عورتوں کا چوتھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو"- (کنز الایمان)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"للزوجة الربع عند عدمھما" ترجمہ کوئی اولاد نہ ہونے کی صورت میں بیوی کا چوتھائی حصہ ہے. (ج:٦،ص:٥٠٠،کتاب الفرائض،باب ذوی الفروض)
بہار شریعت میں ہے-
"اگر میت کی بیوی کے ساتھ میت کا بیٹا بیٹی یا پوتا پوتی نہ ہو تو اس کو کل مال کا چوتھائی ملے گا-" (ج:٣،ح:٢٠،ص:١٨)
🖊پھر مابقیہ تین حصے کو سات حصوں میں تقسیم کر کے دو، دو حصہ تینوں بھائیوں کو ملے گا اور ایک حصہ بہن پائے گی.
قرآن مجید میں ہے-
"وإن کانواإخوة رجالا أو نساء فللذکر مثل حظ الانثیین"(سورہ نساء،آیت نمبر:١٧٦)
ترجمہ اگر بھائی بہن ہوں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر" (کنز الایمان)
فتاوی ہندیہ میں ہے-
"ومع الأخ لأب و أم للذکر مثل حظ الانثیین"-
ترجمہ اگر حقیقی بہنوں کے ساتھ ان کا کوئی حقیقی بھائی بھی ہوتو بھائی کو بہنوں سے دوگنا ملے گا" (ج:٦،ص:٥٠٠،کتاب الفرائض،باب ذوی الفروض)
بہار شریعت میں ہے-
"اگر میت کی بہنوں کے ساتھ میت کا کوئی بھائی بھی ہو تو وہ اس کے ساتھ مل کر عصبہ ہو جائیں گی اور تقسیم مال للذکر مثل حظ الانثیین کی بنیاد پر ہوگی یعنی مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا" (ج:٣،ح:٢٠،ص:٢٠)
تفسیر نعیمی میں ہے-
"اگر بھائی بہن دونوں ہوں،سگے ہوں تو اس(متوفی) کا مال اس طرح تقسیم ہوگا کہ مذکر یعنی بھائی کو مؤنث یعنی بہن سے دو گنا ملے گا عصبةً" (ج:٦،ص:١٥٦،ملخصا)
اور زید کی بیوی شرعاً ترکہ میں سے اپنے حصہ کی مقدار ضرور پاے گی میکہ چلی جانے کی وجہ سے وہ ترکہ سے محروم نہ ہوگی حتیٰ کہ اگردوسرانکاح کر لے جب بھی اس کو ترکہ سے دیا جاے گا نہ دینے والا گنہ گار قرار پاے گا.
فتاوی امجدیہ میں ہے-
" زید(متوفی)کی بیوی بھی زید کی وارث ہے علاوہ مہر کے اپنا آٹھواں حصہ پاے گی نکاح کرنے کی وجہ سے ترکہ سے محروم نہ ہو گی" (ج:٣،ص:٣٥٦)
فتاوی فیض الرسول میں ہے-
دوسری شادی کرنے کے بعد بھی عورت اپنے متوفی شوہر کی جائداد میں حصّہ پانے کی مستحق ہے اگر اس کے خاوند نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی تو اس صورت میں اس کی کل جائداد میں سے چوتھائی حصہ بیوی کا ہے...... اگر خاوند کے ورثہ اس(بیوی)کا پورا حصہ نہیں دیں گے تو سخت گنہ گار،حق العبد میں گرفتار اور مستحق عذاب نار ہوں گے"- (ج:٢،ص:٧٢٨،ملخصا)
یوں ہی بہنیں بھی ترکہ میں سے اپنے حصہ کی مقدار پائیں گی شادی ہوجانے کی وجہ سے محروم نہ ہوں گی.واللہ تعالیٰ أعلم.
محمد معراج احمد قادری مصباحی بستوی
0 تبصرے