سوال نمبر 117
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
سوال اعضاء انسانی کو ٹرانسفر کرنا کیساہے؟ جیسے آجکل گردے وغیرہ ایک دوسرے کو لیتے دیتےہی؛تو لینے اور دے نے والوں پر حکم شرع کیا ہے؟
المستفتی محمد حسان نوری دولتپور گرنٹ گونڈہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب انسان کے کسی بھی جزء سے انتفاع کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی لئے مدت رضاعت سے زائد مدت دودھ پلانا بھی ممنوع ہے۔
ہر اس عمل سے اسلام نے روکا ہے جو انسان کی اشرفیت وافضلیت کے منافی ہو۔ اگر اسلام انسان کی تکریم واحترام کی اتنی موکد تعلیم نہیں دیتا تو انسان قابل تکریم اور اشرف المخلوقات کی بجائے متاع بازار بن کے رہ جاتا اور لوگ اس کے گوشت پوست سے سربازار بھوک مٹاتے نظر آتے!پھر انسان اپنے جسم کا خود مالک بھی نہیں ہے بلکہ وہ صرف امین ہے۔ جسم کا مالک اللہ ہے۔ جب جسم انسان کا مملوک نہیں تو پھر غیر مملوک شئے میں کسی بھی قسم کا تصرف کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ ۔۔اس لئے خواہ زندگی میں یا مرنے کے بعد اپنے جسم کے حصہ کی بیع یا ہبہ ملک غیر میں تصرف کے باعث ناجائز ہےجیسا کہ علامہ کمال الدین علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں والانتفاع بہ لان الآدمی مکرم غیر مبتذل فلایجوز ان یکون شی من اجزائہ مھانا ومبتذلا وفی بیعہ اھانۃ لہٗ وکذا فی امتھانہ باالانتفاع (فتح القدیر ج؍۶،ص؍۶۳، باب البیع الفاسد)
اور علامہ کاسانی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں والاآدمی بجمیع اجزائہ محترم مکرم ولیس من الکرامۃ والا حترام ابتذالہ بالبیع والشراء (البدائع والصنائع:ج؍۵،ص؍۱۴۵،کتاب،البیوع،فصل واماالذی یرجع الی المقصود۔۔۔۔۔الخ
ومثلہ فی ردالمحتار:ج؍۶،ص؍۳۷۲،فصل فی النظر والمس۔کتاب الخطر والاباحۃ)
اس لئے اعضاء انسانی کی خرید وفروخت یا ہبہ وعطیہ اسلام کے بنیادی تصور کے خلاف ہے اور ناجائز ہے۔
ہاں اگر کوئی مریض ایسی حالت میں پہنچ جائے کہ اس کا کوئی عضو اس طرح بے کار ہو گیا ہے کہ اگر اس عضو کی جگہ کسی دوسرے انسان کا عضو اُس کے جسم میں پیوند نہ کیا جائے، تو قوی خطرہ ہے کہ اس کی جان چلی جائے گی، اور سوائے انسانی عضو کے کوئی دوسرا متبادل اس کمی کو پورا نہیں کرسکتا، اور ماہر قابلِ اعتماد اطباء کو یقین ہے کہ سوائے عضو انسانی کی پیوندکاری کے کوئی راستہ اس کی جان بچانے کا نہیں ہے، اور عضو انسانی کی پیوندکاری کی صورت میں ماہر اطباء کو ظنِ غالب ہے کہ اس کی جان بچ جائے گی، تو ایسی ضرورت، مجبوری اور بے کسی کے عالَم میں عضو انسانی کی پیوندکاری کرواکے اپنی جان بچانے کی تدبیر کرنا مریض کے لئے مباح ہوگا۔
اسی طرح اگر کوئی تندرست شخص ماہر اطباء کی رائے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر اس کے دو گُردوں میں سے ایک گُردہ نکال لیا جائے، تو بظاہر اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اور وہ اپنے رشتہ دار مریض کو اس حال میں دیکھتا ہے کہ اس کا خراب گُردہ اگر نہیں بدلا گیا، تو بظاہرِ حال اس کی موت یقینی ہے، اور اس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے، تو ایسی حالت میں اس کے لئے اجازت ہوگا کہ اپنا ایک گُردہ اس مریض کو دے کر اس کی جان بچالے۔ یہ انسانی ہمدردی اور خدمت انسانیت ہے۔
اسی طرح اگر کسی اِنسان کو خون کی ضرورت پڑجائے اور ماہر ڈاکٹر کی تجویز ہو کہ اس کے لئے خون ناگزیر ہے، تو اِنسانی جان بچانے کے لئے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو عطیہ کرنے کی اجازت ہے، اِسی طرح کسی مسلمان کے لئے اس سے لینے کی اجازت ہے.
اللہ تعالی قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے.
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿سورہ بقرہ۱۷۳﴾
ترجمہ اس نے یہی تم پر حرام کئے ہیں مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدان کا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جو ناچار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں ، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،.
حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿سورہ مائدہ۳﴾
ترجمہ تم پر حرام ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور جو گلا گھونٹنے سے مرے اور بےدھار کی چیز سے مارا ہوا اور جو گر کر مرا اور جسے کسی جانور نے سینگ مارا اور جسے کوئی درندہ کھا گیا مگر جنہیں تم ذبح کرلو ، اور جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا اور پانسے ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کام ہے ، آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس نوٹ گئی تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطۡعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوۡ دَمًا مَّسۡفُوۡحًا اَوۡ لَحۡمَ خِنۡزِیۡرٍ فَاِنَّہٗ رِجۡسٌ اَوۡ فِسۡقًا اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿انعام ۱۴۵﴾
ترجمہ تم فرماؤ میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون یا بد جانور کا گوشت وہ نجاست ہے یا وہ بےحکمی کا جانور جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا تو جو ناچار ہوا نہ یوں کہ آپ خواہش کرے اور نہ یوں کہ ضرورت سے بڑھے تو بےشیک اللہ بخشنے والا مہربان ہے .
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿سورہ نحل۱۱'۵﴾
ترجمہ تم پر تو یہی حرام کیا ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح کرتے وقت غیر خدا کا نام پکارا گیا پھر جو لاچار ہو نہ خواہش کرتا اور نہ حد سے بڑھتا تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالی جل شانہ نے حرام چیزوں کا ذکر فرمایا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی لاچار و مجبور ہو نہ خواہش سے کھاتا ہوں اورنہ حد سے بڑھتا ہو تو اس کے لئے گناہ نہیں اللہ بخشنے والا مہربان ہے.
ان آیات کے تحت مفسرین کرام نے یہی فتوی دیا ہے کہ اگر کوئی شخص بھوک کی شدت سے مر رہا ہوں اور وہاں خنزیر کے گوشت کے علاوہ اور کوئی شے موجود نہ ہو اور اسے یقین ہو کہ اگر نہ کھائے گا تو مر جائے گا اور اگر کھائے گا تو بچ جائے گا تو ایسی صورت میں اتنی مقدار میں کھانے کی اجازت دی گئی ہے جس سے جان.بچ جائے یا کوئی پیاس سے تڑپ رہا ہو اور وہاں شراب کے علاوہ اور کوئی شے موجود نہ ہو اور اسے یقین ہو کہ اسے پینے کے بعد بچ جاؤں گا اور نہ پینے کی صورت میں مر جاؤں گا تو اتنی مقدار میں شراب پینا کہ جان بچ جائے پینے کی اجازت ہے.
ٹھیک اسی طریقے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ گردہ وغیرہ وقت ضرورت دینے کی اجازت ہے کیونکہ شراب ام الخبائس جیسی چیز کو پینے اور خنزیر جیسے جانور کا گوشت جان بچانے کے لئے کھانے کی اجازت ہے تو کسی کی جان بچانے کے لئے گردہ یا خون دینے کی اجازت ہے بشرطیکہ دینے والے کو امید قوی ہو کی اسے کوئی ضرر نہ پہنچے گا اور جسے دیا جارہا ہے وہ صحت یاب ہوجائے گا .
واللہ اعلم بالصواب
الفقیر تاج محمد قادری واحدی اترولوی
0 تبصرے