آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

حضور اکرم ﷺ کا گیارہ بیویوں سے نکاح کرنے کی حکمت

 سوال نمبر 1312


السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ

 علمائے کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں سوال عرض ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ زوجہ مطہرہ سے نکاح کیوں فرمائے تھے جواب عنایت فرمائیں ؟ 

سائل محمد گلبہار عالم رضوی کھمار پو کھر اتر دیناجپور بنگال







 


وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب: 

حقیقی وجہ اللہ و رسول ہی جانتے ہیں بظاہر اتنا جان لینا چاہئے کہ:

 نکاح فقط عیش پرستی کے لئے نہیں ہوتا ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات کنواری ہوتیں عین شباب کے عالم میں جو نکاح ہوا وہ عمر رسیدہ بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا سے ہوا جن کی عمر شریف (٤٠) چالیس سال اور آپ کی عمر مبارک (٢٥)پچیس سال تھی۔


دوسرا نکاح پچاس سال کی عمر میں ہوئی جو کہ بڑھاپے کی عمر ہے 

پھر نبوت کے فرائض ایسے انجام دئے کہ سبحان اللہ انبیاء کے ذمہ تبلیغ ہے۔ تبلیغ کے لئے ضروری ہے کہ قوموں سے تعلقات ہوں تعلق پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ  لڑکیاں لینا دینا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبیلوں کے سرداروں کی بیٹیاں قبول فرمائیں۔ جن سے پورے قبیلے قبضے میں آگئے۔ جیسے حضرت ام حبیبہ بنی امیہ کے سردار ابو سفیان کی بیٹی۔حضرت صفیہ قبطی قوم کے سردار حی ابن اخطب کی بیٹی  وغیرہ جن کا نتیجہ یہ ہوا  کہ ان قوموں سے جنگ ختم ہو گئی اور آخر کار وہ سب مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ 

(اسرارالاحکام، ص:  ٣٨)



در حقیقت  جس طرح حضورﷺ  کے باقی ہر عمل کے پیچھے بھی کوئی نا کوئی حکمت ہوتی تھی  اسی طرح آپ کی زندگی کا یہ پہلو بھی  حکمتوں سے آزاد نہ تھا ، حضور ﷺ کی ازواج کی کچھ اہم حکمتوں کا تذکرہ پیش خدمت ہے ۔

(۱).اسلامی انقلاب کی وسعت تک پہونچنے کیلئے تعلقات کی وسعت اور مختلف خاندانوں اور بااثر قبائل کا تعاون ایک بنیادی ضرورت تھی، اس غرض سے حضور ﷺ نے بہت سی شادیا ں کیں، یہ سب نکاح مختلف قبائل سے تھے، جن میں سے اکثر کا سبب تالیف قلب یا سہارا دینا تھا، یا اس خاندان سے تعلق و رشتہ کی مزید گہرائی مقصود تھی، یا ان رشتوں سے اسلام کو تقویت اور اللہ کی خوشنودی مقصود تھی ۔

حضرت خدیجہ ایک ایسے محبوب ترین رفیق اور دوست سے رشتہ کی استواری تھی، جس نے مکہ کے مشکل ترین دور میں آپ کا ساتھ دیا ، 

معراج کی حیران کن خبر سب سے پہلے آپ نے کی۔ غار ثور کی ہولناک تاریکی میں آپ کا ساتھ دیا، جس نے آپ پر اپنی ہر متاع عزیز لٹانے کی کوشش کی ۔ جوآپ کے اولین جانشین ہوئے اور مزاج نبوت کی حامل صحابی اور رفیق رسول تھے ۔انکے ساتھ رشتہ کاتعلق قائم کرنا ان کے احسانات و محبت کا قلبی وعملی اعتراف تھا ۔اس کے علاوہ حضرت عائشہ کے ساتھ شادی میں حکمت یہ تھی کہ  آپ صلى الله علیه وسلم کے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہو جس نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی کھولی ہو  پھر  نبی صلى الله علیه وسلم کے گھرانے میں آکر پروان چڑھے ، تاکہ اس کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا مؤثر ترین ذریعہ بن سکے۔  

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنی اس نوعمری میں کتاب و سنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوہ حسنہ اور حضور صلى الله علیه وسلم کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا۔ 

حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے تقریبا دوہزار دو سو دس (۲۲۱۰) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه  کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔ 


غرض یہ کہ حضور ﷺ کا کوئی رشتہ ازواج مطہرات بھی محض نکاح کی خاطر نہ تھا بلکہ  اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔ کوئی ایک بھی نکاح ایسا نہیں جس نے اسلامی انقلاب کے لئے راستہ ہموار کر نے میں کوئی مدد نہ دی ہو ۔ اس لیے بے شمار دینی، تعلیمی اور دیگر مصلحتوں اور حکمتوں کی بنیاد پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے بھی یہ اجازت خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی تھی۔


(اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کا جانکاری کے لئے سیرت مصطفی کا مطالعہ فرمائیں ص٦٥٩ تا ٦٨١)

واللہ تعالی اعلم بالصواب 



کتبہ محمد مدثر جاوید رضوی کشن گنج


١٩/ جُمادَی الاُولیٰ ١٤٤٢ ہجری

 ٤/ جنوری ٢٠٢١ عیسوی




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney