سوال نمبر 149
سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں مسجدوں میں قرآن پاک لوگ وقف کرتے ہیں تواتنا کثرت کے ساتھ جمع ہو جاتے ہیں کی ان کو ہٹانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے کچھ لوگ قبر ستان کا سہارا لیتے ہیں کچھ سمندر کے حوا لے کرتے ہیں ایسا کر نا شریعت مطھرہ کی روشنی میں کیسا ہے اگرکو ئ اپنے گھر میں تلاوت کے لئے مانگے تو اسکو دینا کیسا ہے صورت مذکورہ میں بہتر کیا ہے جواب عنایت فرمائیں کرم ہو گا.
المستفتی صابرالقادری بھیونڈی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب صورت مسئولہ میں اگر قرآن شریف ضرورت سے زیادہ ہو جائے تووقف کرنے والوں کو منع کی جائے اور انہیں سمجھایا جائے کہ قرآن شریف کی جگہ کتب احادیث کتب فقہ اور دیگر کتب لاکر رکھ دیں اگر پھر بھی ضرورت سے زیادہ جمع ہوجائے جیسا کہ مشاہدہ ہے تو ایسی صورت میں نہ اسے قبرستان میں دفن کی جائے نہ دریا میں ڈالا جائے بلکہ دوسری مسجد یا مدرسہ میں دے دیا جائے جہاں ضرورت ہو جیسا کہ سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر اس بھیجنے سے مصحف شریف اس مسجد پر وقف کرنا مقصود نہیں ہوتا جب تو بھیجنے والوں کو اختیار ہے وہ مصاحف ان کی ملک میں باقی ہیں جو وہ چاہیں کریں اور اگر مسجد پر وقف مقصود ہے تو اس میں اختلاف ہے کہ ایسی صورت میں اسے دوسری مسجد بھیج سکتے ہیں یانہیں، جب حالت وہ ہو جوسوال مذکور میں ہے اور تقسیم کی ضرورت سمجھی جائے تو قولِ جواز پرعمل کرکے دوسری مساجد ومدارس پر تقسیم کرسکتے ہیں اس شہر کی حاجت سے زائد ہو تودوسرے شہر کو بھی بھیج سکتے ہیں مگر انہیں ہدیہ کرکے، ان کی قیمت مسجد میں نہیں صرف کرسکتے۔ (فتاوی رضویہ شریف ج۱۶ص۱۵)
لیکن عوام کو نہیں دے سکتے جیساکہ فتاویٰ رضو کی عبارت سے ظاہر ہے اگر عوام کو دینے کی اجازت ہوتی تو دوسرے شہر میں بھیجنے کے لیے سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فتوی نہ دیتے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
الفقیر تاج محمد حنفی قادری واحدی اترولوی
0 تبصرے