صلاۃ التسبیح کیا ہے اور اس کی جماعت اگر کریں تو؟

سوال نمبر 152


کیافرماتے مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے تعلق سے کہ؛؛ شب برأت کی نفل نماز سو لوگ یا زیاده جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں حوالہ  کے ساتھ جواب دے کر شکریه کا موقع دیں 

سائل ابوالکلام حشمتی






الجواب بعون الملک الوہاب 
صورت مسؤلہ میں تداعی کے ساتھ نفل کی جماعت کرانا مکروہ ہے اور بلا تداعی نفل کی جماعت  کرانے میں کوئی مضائقہ نہیں؛
کیونکہ جماعت نفل کے بارے میں ہمارے ائمہ کرام رضوان الله تعالی علیهم اجمعین کا مذہب معلوم و مشہور اور عامه کتب مذہب میں مذکور و مسطور یہ هے کہ بلا تداعی مضائقہ نہیں اور تداعی کے ساتھ مکروه ہے اور بلا تداعی مضائقہ نہیں (تداعی ایک دوسرے کو بلانا، جمع کرنا) اس لیے کہ اس سے کثرت جماعت لازم آتی ہے اور ائمہ کرام نے اسے مکروه کہا ہے
اسی طرح غنیه شرح منیه میں ہے

"واعلم ان النفل بالجماعة علی سبیل التداعی مکروه علی ما تقدم ماعد التراویح و صلاة الکسوف والاستسقاء"

غنیة شرح منیه، ص-٤٣٢

اسی طرح درمختار میں ہے 
*"لا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعة خارج رمضان ای یکره ذلک علی سبیل التداعی بان یقتدی اربعة بواحد کما فی الدرر، ولا خلاف فی صحة الاقتداء اذ لا مانع"

در مختار، جلد-٢، ص-٤٨-٤٩

اس عبارت سے واضح ہو گیا کہ کراہت صرف تنزیہی ہے یعنی خلاف اولی ہے نہ کہ تحریمی جو ممنوع و گناه ہو، اور خلاف اولی بلا شبه جائز میں شمار ہوتا ہے جیسا کہ شامی میں ہے 

الظاهر ان الجماعة فیه غیر مستحبة ثم ان کان ذلک احیانا کما فعل عمر کان مباحا غیر مکروه، وان کان علی سبیل المواظبة کان بدعة مکروهة لانه خلاف المتوارث"

فتاوی شامی، جلد-٢، ص-٤٨

 اور اعلی حضرت رضی الله تعالی عنه فتاوی رضویه میں تحریر فرماتے ہیں کہ "اظهر یہ کہ کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولی لمخالفة التوارث نہ تحریمی کہ گناه و ممنوع ہوا 

فتاوی رضویه، جلد-٣، ص-٤٦٤

اور فتاوی بحر العلوم میں ہے کہ "نوافل تنہا تنہا پڑھنی چاہئے نفل جماعت کے ساتھ پڑھنی مکروه ہے امام احمد رضا خان صاحب رحمة الله علیه فرماتے ہیں کہ چار مقتدی ایک امام کے پیچھے پڑھیں تو مکروه ہے صرف تین آدمی ایک امام کے پیچھے ہوں تو مکروه نہیں(فتاوی رضویه، جلد-٣، ص-٤٨٠) امام احمد رضا نے مکروه ہونیکا ثبوت نو کتابوں سے دیا ہے

فتاوی بحر العلوم، جلد-١، ص-٤٣٤

فتاوی امجدیه میں ہے کہ 
نماز نفل جماعت کے ساتھ علٰی سبیل التداعی مکروہ ہے اور تداعی کے یہ معنٰی ہیں کہ تین سے زیادہ مقتدی ہوں ـ اور تین مقتدی ہوں اس میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ بھی مکروہ ہے
اور ایسا ہی درمختار میں ہے
ولایصلی الوتر ولاالتطوع بجماعۃ خارج رمضان ای یکرہ ذالک لو علی سبیل التداعی بان یقتدی اربعۃ بواحدۃ کمافی الدرر و فی الاشباہ عن البزازیه یکرہ الاقتداءفی صلاۃ رغائب و برأۃ و قدر
وھکذا ردالمحتار میں ہے
والنفل بالجماعۃ غیر مستحب لانه لم تفعله الصحابه فی غیر رمضان ھ۱

فتاوی امجدیہ، جلد-١، ص-٢٤٣

انوار الفتاوی میں ہے کہ 
"همارے نزدیک اس مسئله کی تفصیل اور تحقیق کچھ اس طرح ہے کہ کسی بھی نفلی عبادت کو کھلم کھلا یا تنہا ادا کرنے میں افضلیت اور کراهت کا دارومدار "ماحول" اور "زمانه" پر ہے  نفل کی جماعت پر کراہت کا فتوی اس زمانہ اور ماحول کے اعتبار سے دیا گیا ہے جس میں حسن نیت ذوق عبادت اور جذبہ خیر کا بہت غلبه تھا اس زمانے میں یهی افضل تھا کہ نوافل کو بلا جماعت ادا جائے تاکہ کسی کی باطنی کیفیت دوسرے پر منکشف نہ ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہا وه زمانہ اس خطره سے بھی پاک تھا کہ تنہائی میں لوگ عبادت نہیں کر پائیں گے اور سستی کا شکار ہو جائیں گے جب کہ ہمارا زمانہ اس کے بلکل برعکس ہے اب نہ لوگوں میں ذوق عبادت ہے نہ جذبه خیر بلکہ محض رسما کچھ عبادت کر لی جاتی ہیں اندریں حالات اگر کسی موقع پر نوافل خصوصا صلوة التسبیح کی جماعت مع اعلان کا اہتمام کر لیا جاتا ہے تو اس میں شرعا کوئ قباحت اور کراہت نہیں ہے
 انوار الفتاوی، جلد-١، ص-٢٣٥


کتبہ
 ابوالصدف محمدصادق رضا 






ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney