سوال نمبر 200
کیافرماتے ہیں علماء کرام کہ امام پر کچھ مقتدیوں نے الزام لگایاکہ وہ بارباراپنے ٹوپی درست کرتے ہیں جبکہ دوسرے مقتدی انکار کررہے ہیں نیزامام بھی منکرہے
دریں صورے ان مقتدیوں کے لئے کیاحکم ہے نیزان مقتدیوں کے نماز کاکیاحکم ہے جوبلاوجہ الزام تراشی کررہے ہیں
السائل فیض احمد فیض
پونہ مہاراشٹرا
الجواب ھوالموفق للحق والصواب
صورت مسئولہ میں جبکہ امام میں وہ بات نہیں ہے جسکاوہ منکربھی ہےاوردیگر مقتدیوں کی شہادت بھی اسے حاصل ہےتواس امام پر الزام لگاناانتہائی مذموم حرکت ہے اس سے ان لوگوں کو اجتناب کرناچاہئےان کاالزام بے معنی ہے
یارہے کسی مومن پر االزام وبہتان لگاناسر پرآسمان اٹھانے کے مترادف ہےجیساکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
'' عن علي قال: البهتان على البراء أثقل من السموات الحكيم'' (كنز العمال (3/ 802)، رقم الحدیث: 8810*
دوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
کہ ایک مسلم دوسرے مسلم کابھائی ہے اس پر اسکا خون بہانایااسکامال ناجائز لے لینایااسکے ناموس کوضائع کرناحرام ہے
عن أبي هريرةلا تَحاسَدُوا، ولا تَناجَشُوا، ولا تَباغَضُوا، ولا تَدابَرُوا، ولا يَبِعْ بَعْضُكُمْ علَى بَيْعِ بَعْضٍ، وكُونُوا عِبادَ اللهِ إخْوانًاالمُسْلِمُ أخُو المُسْلِمِ، لا يَظْلِمُهُ ولا يَخْذُلُهُ، ولا يَحْقِرُهُ التَّقْوَى هاهُنا ويُشِيرُ إلى صَدْرِهِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ بحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أنْ يَحْقِرَ أخاه ُالمُسْلِمَ، كُلُّ المُسْلِمِ علَى المُسْلِمِ حَرامٌ، دَمُهُ، ومالُهُ، وعِرْضُهُ.
مسلم (٢٦١ هـ)، صحيح مسلم ٢٥٦٤ • [صحيح] • أخرجه البخاري (٦٠٦٤) مختصراً، ومسلم (٢٥٦٤) واللفظ له • شرح الحديث
یہ توعام مومن کی بات ہے امام کادرجہ تو بہت بڑاہے
جو لوگ امام کی بے جامخالفت میں الزام تراشی کرتے ہیں وہ فعل حرام کے مرتکب ہیں وہ اپنے فعل سے باز آئیں ان پر توبہ لازم ہے اور امام سے معافی بھی مانگناضروری ہے .....................!!!!!
الزام لگانے سے قبل اس کی اقتداء میں پڑھی گئی نمازیں ہوگئیں ان کالوٹاناضروری نہیں
(ھکذافی کتب الفقہ)
ھذاماظہرلی ولعلم عنداللہ
کتبــه
منظور احمد یارعـلوی
0 تبصرے