قربانی کے بڑے جانوروں میں عقیقہ کے لئے حصہ لینا کیسا

سوال نمبر 260

 اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَ رَحْمَةُ اَللهِ وَ بَرَكاتُهُ‎ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ قربانی کے بڑے جانور میں عقیقہ کے لئے حصہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ مع حوالہ جواب ارشاد فرمائیں نوازش ہوگی ۔ 
المستفتی : عبد الکریم ممبئی 




وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
 الجواب بعون الملک الوھاب
بڑے جانور کی قربانی میں عقیقہ کا حصہ ملا سکتے ہیں کیونکہ قربانی کے سب شرکاء کى نیت تقرب الى الله (ثواب کى نيت) ہونا ضروری ہے یہ ضروری نہیں کہ وه تقرب ایک ہی قسم کا ہو مثلا سارے قربانی ہى کرنا چاہتے ہو بلکہ تقرب کی جہتیں مختلف ہوں مثلا ایک شریک اپنی واجب قربانی کرنا چاہتا ہے دوسرا شريک نفلی قربانی کرنا چاہتا ہے تیسرا شریک حج تمتع کا دم دینا چاہتا ہے اور چوتها شریک حج قران کا دم دینا چاہتا ہے و على هذا القياس تو تب بهى قربانی جائز  ہے اور عقیقہ بھی تقرب الى اللہ کی ایک صورت ہے لہذا عقیقہ اور قربانی کی شرکت بھی درست ہے فقیہ النفس امام قاضی خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی قاضی خان میں فرماتے ہیں کہ " ولو نوى بعض الشرکاء الاضحية و بعضهم هدى المتعة وبعضهم هدى القران وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم دم العقيقة لولادة ولد ولد له فى عامه ذالک جاز عن الکل فى ظاهر الرواية " اھ یعنی قربانی کے جانور میں شریک بعض حصہ داروں نے قربانی کی نیت کی اور بعض نے  حج تمتع کی دم کى نيت کی اور بعض نے شکار کے جزاء کی نیت کی اور بعض  نے عقیقه کى خون کی نیت کی بچے کی ولادت کی وجہ سے جو اسی سال اس کے یہاں پیدا ہوا ہے ظاہر الروایہ میں یہ قربانی سب کی طرف سے جائز ہے " اھ  ( فتاوی قاضی خان ج 3 ص 237 : کتاب الاضحية ، فصل فيما يجوز فى الضحايا وما لا یجوز ، مطبوعہ کراچی ) اور بدائع الصنائع فى ترتيب الشرائع  میں ہے کہ " ولو ارادوا القربة الاضحية اوغيرھا من القرب اجزاءهم سواء کانت القربة واجبة او تطوعا او وجبت على البعض دون البعض و سواء اتفقت جهات القربة او اختلفت بان اراد بعضهم الاضحية و بعضهم جزاء الصيد و بعضهم هدى الاحصار و بعضهم کفارة شئی اصابه فى احرامه و بعضهم هدى التطوع و بعضهم دم المتعة والقران و هذا قول اصحابنا الثلاثة و کذالک ان اراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له من قبل لان ذالک جهة التقرب الى الله تعالى " اھ یعنی اور اگر قربانی کے شرکاء نے قربت کا ارادہ کیا وہ قربت قربانی ہو یا کوئی اور قربت ان کے لیے کافی ہے برابر ہے کہ وہ قربت واجبہ ہو یا نافلہ  یا بعض پر واجب ہو اور بعض  پر واجب نہ ہو برابر ہے کہ قربت جہات متفق ہوں یا مختلف باين معنى کہ ان میں سے بعض نے قربانی کا ارادہ کیا ہو اور بعض  نے شکار کى جزا کا اور بعض نے احصار  کے دم کا اور بعض نے کسی ایسی شے کے کفار کا جو اسے احرم میں پہنچی ہو اور بعض نفلی قربانی کا اور بعض نے حج تمتع اور قران کے دم کا ارادہ کیا ہو اور یہی قول ہمارے ائمہ ثلاثہ کا ہے اسی طرح اگر ان میں سے بعض نے اپنے بچے کے عقیقے کا ارادہ کیا جو اس سے پہلے پیدا ہو چکا ہے اس کے لئے کہ عقیقہ بھی تقرب الى الله کی ایک جہت ہے " اھ ( بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع کتاب الاضحيه ج 5 ص 72 : مطبوعہ بيروت ) اور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں کہ " قربانی کے سب شرکا کی نیت تقرب کی ہو اس کا یہ مطلب ہے کہ کسی کا ارادہ  گوشت نہ ہو اور یہ ضروری نہیں کہ وه تقرب ایک ہی قسم کا ہو مثلا سب قربانی ہی کرنا چاہتے ہیں بلکہ اگر مختلف قسم کے تقرب ہو وہ تقرب سب پر واجب ہو یا کسی پر واجب ہو اور کسی پر واجب نہ ہو ہر صورت میں قربانی جائز ہے مثلا دم حصار اور احرام میں شکار کرنے کی جزا اور سر  منڈانے کی وجہ سے دم واجب ہوا ہو تمتع اور قران کا دم کہ ان سب کے ساتھ قربانی ہو سکتی ہے اسی طرح قربانی اور عقيقہ کی شرکت بھی ہو سکتی ہے کہ عقیقہ بھی تقرب کی ایک صورت ہے " اھ ( بہار شریعت ج 3 ص 343 ، مکتبۃ المدینہ کراچی )

واللہ اعلم باالصواب
کریم اللہ رضوی






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney