سوال نمبر 304
اسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ ایک غیر مسلم مر گیا ہے اور اس کو جلانے کے لیے ایک مسلمان بھی گیا ہے کیا اس مسلمان کی نکاح ٹو ٹ گیا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما ئے عین نوازش ہوگی
سائل : فقیر صفی اللہ قادری کولکتہ بنگال
و علیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
غیر مسلموں کے دفن میں شریک ہونا نا جائز و حرام ھے البتہ انکی عیادت و تعزیت کر سکتے ہیں لیکن بچنا بہتر ھے؛؛
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ھے؛
'وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَٰسِقُونَ :
( سورة التوبہ ١٠ آیت 84 )
ترجمہ : ان کی قبر پر نہ جاؤ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اسی حالت میں مر گئے وہ فاسق ہیں (Translated By Uploader)
(تفسیر روح البیان میں ھے)
(ای ولا تقف عند قبرہ للدفن او للزیارة والدعاوکان النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اذا دفن المیت وقف علیٰ قبرہ ودعالة)
(تفسیر روح البیان جلد3ص 478)
ترجمہ : یعنی کافر کے قبر کے پاس نہ کھڑا ہو دفن کے لیئے اور نہ ہی زیارت اور نہ ہی دعا کے لیئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن فرماتے تو اس قبر کے پاس کھڑے ہو کر دعا فرماتے (Translated by uploader)
لہذا کافر کے جنازے میں شرکت نا جائز و حرام ھے شرکت کرنے والا سخت گنہگار ہوگا اس پر لازم ھے کہ اعلانیہ مجمع مسلمین میں توبہ استغفار کرے اور آئندہ کے لئے یہ عہد کرے کہ وہ غیر مسلموں کے دفن وغیرہ میں شریک نہ ہوگا؛؛
لیکن یہ کفر نہیں اس لئے شخص مذکور پر تجدید ایمان اور تجدید نکاح ضروری نہیں؛؛
البتہ توبہ استغفار کر لینا بہتر ھے
(فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد اول (کتاب الجنائز)صفحہ 339)
(ایسا ہی فتاویٰ شارح بخاری میں ھے)
کہ غیر مسلم مر دے کے ساتھ شمشان گھاٹ جانا گناہ ھے اور اس طرح جائے کہ وہ بھی انکی بولی بولتا ھے تو کفر ھے اور اس صورت میں یہ حکم ھے کہ توبہ تجدید ایمان کرے بیوی والا ھے تو تجدید نکاح بھی کرے اور اگر بیوی والا نہیں ھے تو صرف تجدید ایمان کرے
( فتاویٰ شارح بخاری جلد2ص 560)
و اللــہ تعــالی اعلــم بالصـــــواب
کتبــہ
محمد عامل رضا
0 تبصرے