نامردی میں طلاق کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر 430

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ آج کے ایک سال پہلے ہندہ کا نکاح زید کے ساتھ میں ہوا تھا اور کچھ دنوں کے بعد ہندہ کی سہیلیوں نے دریافت کیا کہ آپ کے شوہر کا کیا حال ہے تو ہندہ نے کہا کہ کیا بتاؤں مجھے آج تک پتہ نہیں چلا کہ شادی کا مطلب کیا ہوتا ہے اور جب ہندہ سے اور زیادہ تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس کا شوہر زید نامرد ہے آج تک  اس نے اپنی بیوی سے صحبت ہی نہیں کی ہے تو ایسی صورت میں اگر زید سے طلاق لے لی جائے تو کیا ہندہ کو طلاق عدت گزارنی پڑے گی مدلل جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا
بہت شدت کے ساتھ جواب کا انتظار ہے
مولانا محمدوسیم القادری رئیگائیں اترولہ بلرام پور یوپی الہند





وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعون الملك الوهاب 
اگر واقعی ہندہ کا شوہر نا مرد ہے کہ ایک مرتبہ بھی جماع پر قادر نہ ہوسکا تو اس پر فرض ہے کہ ھندہ کو طلاق دے دے اگر نہیں دے گا تو سخت گنہگار ہوگا ـ قرآن پاک میں ہے :
(فامساك بمعروف او تسريح باحسان پارہ دوم آیت ۱۲۹)
اگر زید خود سے طلاق نہ دے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ زید پر دباؤ ڈال کر طلاق دلوائیں اگر اس طرح بھی نہ دے تو ھندہ ضلع کے سب سے بڑے سنی صحیح العقیدہ عالم کے پاس دعویٰ کرے ،عالم شوہر سے دریافت کرے ،شوہر نامرد ہونے کا اقرار کرے تو ایسی صورت میں عالم علاج کے لئے ایک سال کی مہلت دے ،دعویٰ کے پہلے کا زمانہ حساب میں شمار نہ ہوگا بلکہ بعد دعویٰ ایک سال کی مدت درکار ہے تو اگر سال کے اندر شوہر نے جماع کرلیا تو دعوی ساقط ہو جائیگا اور اگر جماع نہ کی اور عورت جدائ کی خواستگار ہوئ تو عالم طلاق کے لئے کہے اگر وہ طلاق دیدے فبہا ورنہ عالم تفریق کر دے جیسا کہ
 فتاویٰ فیض الرسول ج ۲ ص ۲۷۸ میں فتاوی علمگیری ج ۱ ص ۴۶۸ کے حوالہ سے ہے
اذا رفعت المرأة زوجها الی القاضی وادعت انه عنين وطلبة الفرقة فان القاضی يسئله هل وصل اليها او لم يصل فان اقرانه لم يصل اجله سنة
اور ایسے ہی
فتاویٰ خلیلیہ ج ۲ص۱۲۲ میں بھی ہے
عورت بغیر طلاق لئے دوسرا نکا ح ہر گز نہیں کر سکتی 
اب طلاق کے بعد عدت گزار کر عورت کسی بھی سنی صحیح العقیدہ سے نکا ح کرسکتی ہے

والله اعلم ورسوله 
      كتبه
احقر العبد اظهار احمد رضوی






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney