کیا عورت کفریہ کلمات بکنے سے نکاح سے خارج ہو جاتی ہے؟

سوال نمبر 434

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ ذیل میں کہ عورت اگر کفریہ کلام کہہ دے تو کیا نکاح سے نکل جائیگی؟ مع حوالہ جواب دیکر شکریہ کا موقع دیں ــ

سائل:-- عبید رضا ممبی




الجواب بعون الملک الوہاب
 صورت مسؤلہ میں اگر معاذ اللہ تعالٰی عورت مرتد ہوجائے تو شوہر پر وہ حرام ضرور ہوجائیگی لیکن ارتداد سے نکاح نہیں ٹوٹے گا اسی لئے دوبارہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ کسی دوسرے مسلمان سے نکاح نہیں کر سکتی بلکہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور کی جائیگی 

اگر بفضلہ تعَالی عورت مسلمان ہوگئی تو اسے مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہے اور دونوں کے درمیان نکاح دہرا دیا جائے البتہ اگر شوہر اپنی زوجیت میں رکھنے پر تیار نہ ہو تو وہ طلاق دیدے عدت گزارنے کے بعد جس سنی مسلمان سے چاہے نکاح کر سکتی ہے 

درمختار مع شامی میں ہے" وفتی مشایخ بلخ بعدم الفرقۃ بردتھا جزرا او تیسرا ھ۱

یعنی بلخ کے علمائے کرام نے ( فتنہ ارتداد زن کو )  روکنے اور ( احکام شرعیہ ) سہولت بر قرار رکھنے کے لئے فتوی دیا کہ معاذاللہ تعالٰی عورت مرتد ہوجائے تو اس سے نکاح نہ ٹوٹےگا 

 درمختار مع شامی ص 403 

فھکذا بحرالرائق میں ہے" وبعض مشایخ بلخ و سمر قند افتی بعدم الفرقۃ بردتھا حسما لباب المعصیۃ والحیلۃ للخلاص منه ھ۱

یعنی بلخ اور سمر قند کے بعض علمائے کرام نے عورت کے مرتد ہوجانے سے نکاح فسخ نہ ہونے کا فتوی دیا ہے تا کہ معصیت اور شوہر سے چھٹکارہ پانے کے حیلہ کا دروازہ بالکل بند ہوجائے 

 بحرالرائق صفحہ 214 

نیز حاشیہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ اب فتوٰی اس پر ہے کہ مسلمان عورت مرتد ہو کر نکاح سے نہیں نکل سکتی وہ بدستور اپنے شوہر مسلمان کے نکاح میں ہے مسلمان ہو کر یا بلا اسلام دوسرے سے نکاح نہیں کر سکتی 

 حاشیہ فتاوی رضویہ جلد اول صفحہ 393

فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ 161 

وھکذا مجلس شرعی میں ہے؛؛ ظاہر مذہب یہ ہے کہ زوجین میں سے کوئی اسلام میں سے پھر جائے تو اس کا نکاح فوراً فسخ ہو جائیگا لیکن اب فتوٰی اس پر ہے کہ عورت ارتداد کے سبب نکاح سے خارج نہیں ہوتی جیساکہ اعلحضرت عظیم البرکت تہذیب و تادیب کے روشن مینار؛ سنت مصطفی کے آئینہ دار؛ الشاہ امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ اب فتوٰی اس پر ہے کہ مسلمان عورت معاذاللہ مرتد ہو کر بھی نکاح سے نہیں نکل سکتی وہ بدستور اپنے مسلمان شوہر کے نکاح میں ہے 

ومن ذالک افتائی مرارا بعدم انفساخ نکاح امرأۃ مسلم  بارتدادھا لما رأیت من تجاسر ھن مبادرۃ الی قطع العصمۃ کما بینته فی السیر من فتاوانا وکم له من نظیر ھ۱

اس وجہ سے میں نے بارہا فتوٰی دیا کہ مسلمان کی بیوی کا نکاح اس کے مرتد ہونے سے فسخ نہ ہوگا کیونکہ میں نے عورتوں کو عصمت نکاح سے نکلنے میں جلد باز وجری دیکھا؛  میں نے اسے اپنے فتوٰی کی ( کتاب السیر ) میں بیان کیا اور اس کی بہت سی نظیریں ہیں 

 مجلس شرعی کے فیصلے صفحہ 493 

 نیز فتاوی مصطفویہ میں ہے عورت کی ردت سے نزد مشایخ بلخ و سمر قند فرقت واقع ہی نہیں ہوتی" وحسما لباب المعصیۃ وسد الباب الفتنه" یہی فتوی دیتے ہیں نیز امام صفارو و امام دبوسی رحمہما اللہ تعالی نے اسی کو اختیار فرمایا اور اسی پر فتوی دیا" وانا اقول و باللہ التوفیق" قرآن مقدس کا ارشاد ہے" بیدہ عقدۃ النکاح" یعنی نکاح کی گرہ مرد ہی کے ہاتھ میں تو یہ ارشاد الہی بھی بظاہر اسی کو مقتضی کہ ردت عورت سے فرقت نہ واقع ہو" چنانچہ شرع شریف نے عورتوں کو یہ راہ نہ دی ورنہ روز بروز جانے کتنی عورتیں اپنے شوہروں سے ناراض ہو کر انکی قید نکاح سے نکل نے کو کفر کیا کرتیں 

 ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم
  
مجمع الانہر/ ردالمحتار / فتح القدیر/ فتاوی مصطفویہ صفحہ 344 



والله تعالٰی اعـلم

کتبہ
 العبدالاثیم خاکسار
ابوالصدف محمد صادق رضا
مقام؛ سنگھیا ٹھاٹھول (پورنیه)
خادم شاہی جامع مسجد پٹنه بہار






ایک تبصرہ شائع کریں

3 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney