سوال نمبر 506
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سوال۔ایک عورت تین ماہ حاملہ ہے ڈاکٹر کے مطابق پیٹ میں جو بچہ ہے اس کو ایک بیماری ہے جو پیدا ہونے کے بعد ہمیشہ بیمار رہے گا ۔اب ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ حمل کو زائل کر نا ہوگا۔توکیا حمل کو زائل کر سکتے ہیں۔؟بچے کی روح کتنے ماہ میں ڈالی جاتی ہے؟
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہبسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب: جان پڑنے کے بعد اسقاط حمل ناجائز وحرام ہے ہاں اگر بچہ یاماں کو صحیح طور پر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو حمل ساقط کرسکتے ہیں جب کہ جان نہ پڑی ہو . اسقاط حمل کے متعلق سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں "جان پڑجانے کے بعد اسقاط حمل حرام ہے، اور ایساکرنے والا گویاقاتل ہے، اور جان پڑنے سے پہلے اگرکوئی ضرورت ہے تو حرج نہیں. (فتاوی رضویہ ٢٤ ص
اور علامہ صد الشریعہ علیہ الرحمہ''ردالمحتار''،کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع، ج۹،ص۷۰۸،۷۰۹.کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں اسقاط حمل کے لیے دوا استعمال کرنا یا دائی سے حمل ساقط کرانا منع ہے۔ بچہ کی صورت بنی ہو یا نہ بنی ہو دونوں کا ایک حکم ہے، ہاں اگر عذر ہو مثلا عورت کے شیر خوار بچہ ہے اور باپ کے پاس اتنا نہیں کہ دایہ مقرر کرے یا دایہ دستیاب نہیں ہوتی اور حمل سے دودھ خشک ہوجائے گا اور بچہ کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے تو اس مجبوری سے حمل ساقط کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اس کے اعضا نہ بنے ہوں اور اس کی مدت ایک سو بیس دن ہے۔ (بہار شریعت ح١٦/)
صورت مسئولہ میں اسقاط حمل جائز ہے کیونکہ ابھی تین مہینہ کا ہے یعنی جان نہیں پڑی ہے اور عذر بھی پایا جارہا ہے. واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
الفقیرتاج محمد حنفی قادری واحدی اترولوی
١٣/صفر المظفر ١٤٤١ھ
١٣/اکتوبر٢١٠٩ء بروز اتوار
0 تبصرے