مچھلی حلال کیوں

سوال نمبر 502

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

سوال: یہ ہے کہ جیسے گاے۔بیل ۔بھنس۔وغیرہ وغیرہ ۔حلال چیزیں ۔ان کو حلال کیا جاتا ھے ۔لیکن مچھلی کو حلال نہی کیا جاتا ۔جیسے ۔دریا سے پکڑی اور پھر وہ مرگٸی پھر اسی کو لاکر پکایا اور دکان سے بھی مردہ مچھلی لاکر پکاتے ھیں 
تو کہنے کا مطلب یے ھے کی جب سب چیز حلال ھو تی ھے تو مچھلی کیوں حلال نہی ھوتی۔اور اگر ھوتی ھے تو کیا طریقہ ھے مچھلی حلال کرنے کا
٢ ۔۔اور چلتے چلتے یے بھی بتادیں کہ کونسی مچھلی کھانا چاہے کونسی نہی کھانی چاہیے اور مچھلی حلال کا طریقہ کیا ھے براے کرم یے سب جو تحریر کیا گیا براے کرم مع تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرماٸیں 
سائل: محمد سرفراز رضا ۔۔۔ایم پی





وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب : مچھلی حلال ہے اگرچہ پانی سے نکالنے کے بعد مرجائے اور اسکا ثبوت احادیب طیبہ سے ہے جیسا کہ مشکوتہ شریف میں ہے
 وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :  أحلت لنا ميتتان ودمان : الميتتان : الحوت والجراد والدمان : الكبد والطحال (رواه أحمد وابن ماجه والدارقطني) 
ترجمہ: حضرت ابن عمر  کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔  ہمارے لئے دو بغیر ذبح کے مری ہوئی چیزیں اور دو خون حلال ہیں۔ دو بغیر ذبح کے مری ہوئی چیزیں تو مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں ( کہ یہ دونوں اصل میں بستہ خون ہیں نہ کہ گوشت۔   
(مشکوٰۃ شریف/باب: مچھلی، ٹڈی، کلیجی اور تلی حلال ہے حدیث نمبر: ٤٠٣٤)

اور دوسری حدیث میں ہے
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا نَرْ کَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیْلَ مِنَ الْمَآءِ فَاِنْ تَوضَّاْنَا بِہٖ عَطِشْنَا اَفَنَتَوَضَّأُ بِمَآءِ الْبَحْرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھُوَ الطَّھُوْرُ مَاوُہ، وَالْحِلُّ مَیْتَتُہ،۔ ( رواہ مالک و الجامع ترمذی و ابوداؤد و نسائی و ابن ماجۃ و الدارمی)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  ایک آدمی نے سرکار دو عالم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ہم (کھارے) دریا میں کشتی کے ذریعہ) سفر کرتے ہیں اور (میٹھا) پانی اپنے ہمراہ تھوڑا سا لے جاتے ہیں اس لئے اگر ہم اس پانی سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں ! تو کیا ہم دریا کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں (یا تیمم کرلیا کریں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  دریا کا وہ پانی پاک کرنے والا ہے اس کا مردار حلال ہے۔  (مشکوٰۃ شریف باب پانی کے احکام کا بیان حدیث نمبر: 450)

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مفتی یار احمد خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میتہ  اس مردار جانور کو کہتے ہیں جو بغیر ذبح کئے ہوئے اپنے آپ مرجائے چناچہ اس حدیث میں میتۃ (سے مراد مچھلی ہے کیونکہ اسے ذبح نہیں کرتے اس کا شکار کرنا اور اسے پانی سے نکالنا ہی اس کو ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ البتہ جو مچھلی پانی میں مرجائے وہ حنفیہ کے ہاں حلال نہیں ہے۔ دریائی جانوروں میں مچھلی تمام علماء کرام کے ہاں متفقہ طور پر حلال ہے، دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔ (مراتہ المناجیح)

ان احادیث طیبہ سے ثابت ہوگیا کہ مردار مچھلی حلال ہے اگرچہ پانی سے نکلنے کے بعد مرگئی ہواور جو قرآن و احادیث سے ثابت ہو اس میں کیوں کب کیسے نہیں کرنی چاہئے ہاں اگر پانی میں مچھلی مرکر اوپر تیرنے لگے تو حرام ہے کیونکہ یہ نقصان دہ ہے اور اگر پانی میں کسی نے مار کر پکڑلیا تو یہ بھی جائز ہے (کتب فقہ وفتاوی)
(٢)پانی میں جتنی مچھلیاں رہتی ہیں سب جائز ہیں. (کتب فقہ)


واللہ اعلم بالصواب

ازقلم
الفقیر تاج محمد حنفی قادری واحدی اترولوی
١٤/صفر المظفر ١٣٣١ھ
١٣/اکتوبر ٢٠١٩ء بروز پیر








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney