سوال نمبر 594
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
علمائے کرام کی بارگاہ میں ایک مسئلہ ہے کہ عقیقہ کب سے کب تک کر سکتے ہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سورج نکلنے کے بعد کر سکتے ہیں رات میں نہیں کر سکتے؟ کیا صحيح ہے اور کیا غلط ہے رہنمائی فرمائیں کرم ہوگا
سائل محمد سلیم خان
وعلیکم السلام ور حمة الله وبركاته
الجواب اللھم ہدایةالحق والصواب
صورت مسئولہ میں مطلقاً یہ کہنا کہ رات میں عقیقہ نہیں کر سکتے ہیں. یہ غلط ہے رات میں کر سکتے ہیں مگر مکروہ تنزیہی ہے )
بہار شریعت میں حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں عقیقہ کے لئیے ساتواں دن بہتر ہے اور ساتویں دن نہ کر سکیں تو جب چاہیں کر سکتے ہیں سنت ادا ہوجائے گا
مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شرائط قربانی کے ہیں وہی شرائط عقیقہ کے بھی ہیں
بہار شریعت حصہ پانزدہم صفحہ ۳۵۸
فتاوی رضویہ میں صاحب کنز الایمان حضور سیدی سرکار اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ در مختار کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ
رات کو ذبح کرنا اندیشٸہ غلطی کے باعث مکروہ تنزہی خلاف اولی ہے اور ضرورت واقع ہو مثلاً صبح کے انتظار میں جانور مرجائے گا تو کچھ کراہت نہیں
لانہ الاٰن ماموربہ حذراعن اضاعةالمال اھ"
کیوں کہ مال کے ضائع ہونے کے خطرہ کی بنا پر وہ اب اس کا مامور ہے-
پھر کراہت اس فعل میں ہے کہ ذبح اگر صحیح ہوجائے ذبیحہ میں کچھ کراہت نہیں لتبین ان الغلط لم یقع"واضح ہوجانے پر غلطی نہ ہوٸی
درمختار میں ہے کہ
کرہ تنزیہا الذبح لیلالاحتمال الغلط
غلطی کے احتمال کی وجہ سے رات کو ذبح کرنا مکروہ تنزیہی ہے
(در مختار جلد ٢ کتاب الاضحیہ ص ٢٣٢ مطبع مجتباٸی دہلی)
(درمختار جلد دوم کتاب الذباٸح ص ٢٣٠ مطبع مجتباٸی دہلی)
(فتاوی رضویہ جدید جلد ۲۰ کتاب الذباٸح صفحہ ٢١٣ تا ٢١٤)
کتبــــہ
محــــمد معصــوم رضا نوری
منگلور کرناٹک انڈیا
۲۷ ربیع النور شریف ۱۴۴۱ھ
۲۵ نومبر ۲۰۱۹ء بروز سوموار
+918052167976
0 تبصرے