آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

مردہ جانور پانی میں ہو تو وضو و غسل کا کیا حکم ہوگا؟

سوال نمبر 645

السلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ 
 عرض تحریر یہ ہے کہ ماء جاری میں مردہ جانور پڑا ہو اور اس سے لگ کر پانی بہہ رہا ہو تو اس سے وضو غسل جائز ہے کہ نہیں ؟ جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع عین نوازش ہوگی ۔ 
سائل : محمد مدثر رضا امجدی کشنگج 




وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
 جواب صورت مسئولہ میں اگر ماء جاری میں مردہ جانور پڑا ہو اور اس سے لگ کر پانی بہہ رہا ہے تو جتنا پانی اس سے ملکر بہہ رہا اس سے کم جو اس کے اوپر سے بہہ رہا یا زائد یا برابر تو مطلقاً ہر جگہ وضو وغسل کرنا جائز ہے جب کہ کوئی وصف متغیر نہ ہو جیسا کہ شرح وقایہ میں ہے کہ

 " و اذا سد كلب عرض النهر و يجرى الماء فوقه ان كان ما يلاقى الكلب أقل مما لا يلاقيه يجوز الوضوء فى الاسفل الا لا قال الفقيه أبو جعفر على هذا أدركت مشائخى و عن أبى يوسف لا بأس بالوضوء به إذا لم يتغير أحد أوصافه " اھ ( شرح وقایہ ج 1 ص 84 : کتاب الطھارة )

 اور منیة المصلى میں ہے کہ

 " اذا كان الماء فوق الجيفة مقدار ذراع جاز و ذكر فى النوازل ان كان الماء الذى يلاقى الجيفة دون الذى لا يلاقى الجيفة يعنى اذا كان الغلبة للماء الذى لا يلاقى الجيفة جاز و الا لا ....... و كان الماء كله أو نصفه أو أكثر يلاقى العذرة فهو نجس " اھ ( منیة المصلی ص 65 : بیان حکم ما اذا جری الماء علی نجس )

 اور بہار شریعت میں ہے کہ

 " مردہ جانور نہر کی چوڑائی میں پڑا ہے اور اس کے اوپر سے پانی بہتا ہے تو عام ازیں کہ جتنا پانی اس سے مل کر بہتا ہے اس سے کم ہے جو اس کے اوپر سے بہتا ہے یا زائد ہے یا برابر مطلقاً ہر جگہ سے وُضو جائز ہے یہاں تک کہ موقع نجاست سے بھی جب تک نَجاست کے سبب کسی وصف میں تغیّر نہ آئے یہی صحیح ہے اور اسی پر اعتماد ہے " اھ ( بہار شریعت ج 1 ص 330 : پانی کا بیان ) 

واللہ اعلم باالصواب
کریم اللہ رضوی 
خادم التدریس دار مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی
 موبائل نمبر 7666456313



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney