ظہار ،و خلع ،کیا ہے؟

سوال نمبر 664

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ھیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
ظہار کسے کہتے ہیں؟ 
خلع کسے کہتے ہیں ؟ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں ۔ 
المستفتی :-- محمد عباس اشرفی
کچھوچھہ شریف




وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
 جواب ظہار کہتے ہیں کہ : کوئی شخص اپنی بیوی کو یوں کہہ دے : تو مجھ پر میری ماں یا بہن جیسی ہے جیسا کہ روح المعانی میں ہے کہ

" و الظهار لغة مصدر ظاهر وهو مفاعلة من الظهر ، ويراد به معان مختلفة راجعة إلى الظهر معنى و لفظا بالاختلاف الاغراض  ظاهر من امرأته إذا قال لها : انت على كظهر امى " اھ (روائع البیان ج 2 ص 514 : سورہ المجادلہ ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

اور عنابہ میں ہے کہ

" وَ فِي اصْطِلَاحِ الْفُقَهَاءِ : تَشْبِيهُ الْمَنْكُوحَةِ بِالْمُحَرَّمَةِ عَلَى سَبِيلِ التَّأْبِيدِ اتِّفَاقًا بِنَسَبٍ أَوْ رَضَاعٍ أَوْ مُصَاهَرَةٍ " اھ ( العناية ج 2 ص 6 : باب الظِّهَارُ )

اور اس کا حکم یہ ہے کہ : اگر کوئی ظہار کرلے خواہ مذاق یا نشہ میں کیا ہو ، یا جبرا کیا ہو ، جب تک  کفارہ ظہار ادا نہیں کرے گا اس کا اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرنا جائز نہیں ، البتہ دیکھنا ، بات کرنا وغیرہ جائز ہے ۔ یعنی اس لفظ سے طلاق تو نہیں ہوتی ، لیکن کفارہ ادا کئے بغیر بیوی سے صحبت اور ہمبستری کرنا حرام ہے ، اور ظہار کا کفارہ یہ ہے کہ : اولاً غلام آزاد کرنا ، ثانیاً اگر اسکی طاقت نہیں ہے ، تو دو ماہ مسلسل روزے رکھنا ، ثالثاً اگر اسکی بھی طاقت نہیں ہے ، تو ساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلانا ۔ ان تینوں میں سے کوئی ايک بھی ادا كر دے تو كفاره ادا ہو جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

 " وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ذَلِكَ " اھ ( پ 28 سورہ المجادلہ آیت 3 ، 4 )

خلع کے متعلق امام اہلسنت سیدی اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ " خُلع شرع میں اسے کہتے ہیں کہ : شوہر برضائے خود مہر و مال وغیرہ کے عوض عورت کو نکاح سے جدا کر دے تنہا زوجہ کے لئے نہیں ہو سکتا " اھ ( فتاوی رضویہ جدید ج 13 ص 264 : مکتبہ دعوت اسلامی ) اور مصنف بہار شریعت تحریر فرماتے ہیں کہ " کے بدلے میں  نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں عورت کا قبول کرنا شرط ہے بغیر اُس کے قبول کیے خلع نہیں  ہو سکتا اور اس کے الفاظ معین ہیں ان کے علاوہ اور لفظوں سے نہ ہوگا " اھ ( بہار شریعت ج 2 ص 194 : خلع کا بیان ) اور اگر شوہر اور بیوی میں نا اتفاقی رہتی ہو اور یہ اندیشہ ہو کہ احکام شرعیہ کی پابندی نہ کر سکیں گے تو خلع جائز ہے اور جب خلع کر لیں تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور جتنی رقم طے ہوئی ہے عورت پر اس کا دینا لازم ہے جیسا کہ ھدایہ میں ہے کہ

 " و اذا تشاق الزوجان و خافا ان لا یقیما حدود الله فلا بأس بان تقتدی نفسها بمال یخلعها به لقوله تعالیٰ " فلا جناح علیهما فیما افتدت به " فاذا وقع بالخلع تطلیقة بائنة ولزمها المال " اھ ( ھدایہ ج 1 ص 384 : باب الخلع ، مجلس برکات مبارک پور )

واللہ اعلم باالصواب
کریم اللہ رضوی
خادم التدریس دار مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی
موبائل نمبر 7666456313






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney